تعلیم ایسی ہو کہ مکمل اخبار سمجھ سکیں

                تعلیم کا ذکر چھڑتے ہی ہمارے ذہن میں اسکول کا ایک نقشہ کھینچتا ہے جس میں ممکن ہے ایک خوبصورت سی عمارت، بہت سارے کلاسس، گھومتے پھرتے بچے، کھیل کا میدان، پڑھاتے وقت نگرانی کرتے ٹیچر، تختئہ سیاہ، بہت سارے نقشہ جات، چارٹس، جگہ جگہ لکھی گئی مختصر سی عبارتیں، غرض یہ کہ ایک منظم ماحول تصور کا حصّہ بنتا ہے۔ اس لحاظ سے جب میں نے تعلیم کا مطلب دوبارہ تلاش کیا تو پتہ چلا کہ تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس میں اسکول یا کالج کی سطح پر با سلیقہ ہدایات دی اور لی جاتی ہیں اور کل ملا کر یہ طلبہ کو روشناس کرنے والا ایک عمل ہے۔ لیکن یہ روشناس کرنے والا عمل زندگی بھر جاری رہنا چاہیے، اس لئے تعلیم کو گہوارے سے لے کر گور تک جاری رکھنے والے عمل کے طور پر بھی دیکھاجاتا ہے۔ مختلف دانشوروں نے تعلیم کو اپنے ہی طور پر پیش کیا ہے، مثال کے طور پر گاندھی جی چاہتے تھے کے کوئی شخص چھوٹا ہو یا بڑا، اس میں نظر آنے والی ساری خوبیاں اجاگر ہونی چاہیے۔ انکے مطابق تعلیم کا مطلب، "بچے اور بڑے کے جسم، ذہن اور روح کو مکمل طور پر پروان چڑھانا ہے"۔ جان ڈیوے نے تعلیمی عمل سے وابسطہ مختلف تصوارت جگہ جگہ پیش کیا ہے، ایک جگہ وہ کہتے ہیں کہ "تعلیم صرف زندگی کے لئے تیاری ہی نہیں بلکہ تعلیم ہی زندگی ہے"۔

                میں نے انگریزی اخبار 'دی ہندو' میں ایک مشہور شخص کا انٹرویو پڑھا تو اس میں ایک جملے نے مجھے اپنی طرف بے ساختہ کھینچا، جس میں انٹرویو دینے والے موصوف نے اپنے والد کی وہ ہدایت یاد کی جس میں انکے والد نے کہا تھا کہ تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ آپ اخبار کے ہر صفحہ کو سمجھ سکو۔ مجھے یہ جملہ اتنا پسند آیا کہ میں جاننا چاہ رہا تھا کہ کیا آج کی تعلیم ایسی ہے کہ ہمارے نوجوان اخبار کے ہر صفحہ کو سمجھ سکتے ہیں۔ جواب بس اتنا ہی ملتا ہے کہ ہمارے نوجوان صرف ڈگریاں حاصل کرتے ہیں، جس میں گریجویشن سے لیکر پی ایچ ڈی ہی نہیں، بلکہ مختلف قسم کی پروفیشنل ڈگریاں بھی شامل ہیں۔ زیادہ سے زیادہ وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنی نصابی کتب یا حوالہ جاتی کتب سمجھ سکتے ہیں۔ اس نظام سے حاصل ہونے والے نوجوان اس سے بالکل بے خبر ہیں کہ دنیا کس سمت میں جارہی ہے اور ان کو کونسی تیاری کرنی ہے؟ہمارے صنعتی ادارے ہمیشہ ہی کہتے رہے ہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام کی پیداوار انکے یہاں روزگار کرنے یا کام کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ جب زمینی حقیقت کو پرکھا جائے تو ان نوجوانوں کی سماجی، صنعتی ضرورتوں کی لاعلمی ان کی بے بسی کو وجہ نظر آتی ہے۔ یہ معلومات کہاں سے ملتی ہی؟ اس بات کا جواب ہمیں بتلاتا ہے کہ حالات حاضرہ اور مستقبل کے منصوبوں کی معلومات ہمیں اخبارات کے ذریعے ملتی ہیں۔

اخبار کیا ہیں؟

                کیا اخبار صرف خبروں کا مجموعہ ہے۔ ایک تصور بھی ہے کہ اخبار یا newspaper، نیوز بتلانے والا پرچہ ہے، جس میں لفظ NEWS کی توسیع کرتے ہیں تو تمام سمتوں یعنی N- شمال(نارتھ)، E- مشرق(ایسٹ)، W- مغرب(ویسٹ) اور S-جنوب(ساوتھ) میں ہونے والی سرگرمیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ نیوزپیپر کے کچھ تعارف اسطرح بھی ہیں۔

                بطور اسم اسکو ایک پیپر کے ایک بڑے شیٹ کا ایک مجموعہ کے طور پر لیا جاتا ہے، جس پر خبروں کی اسٹوری مقامی واقعات کی اطلاعات، اشتہارات وغیرہ ہوتے ہیں اور جسے تہہ کرکے روزانہ یا ہفتہ واری طور پر بیچا جاتا ہے۔      اسکے علاوہ اسے "ایک پیپر کے طور پر بھی لیا جاتا ہے، جسکی طباعت کرکے تقسیم کیا جاتا ہے اور جس میں خبریں، رائے سے متعلق مضامین، فیچرز اور اشتہارات ہوتے ہیں"۔

                اب تعلیم اور اخبار کے رشتہ کو مزید سوچنے سے پتہ چلا کہ ہمیں اخبار کو خبروں کو بہم پہچانے والے ایک پیپر شیٹ سے آگے بڑھ کر سوچنا چاہیے۔ تب مزید غور و فکر سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک اخبار کے مختلف حصّہ ہوتے ہیں، جن کا درج ذیل میں ذکر کیا گیا ہے۔

خبریں- یہ خبریں مقامی، شہروں، اضلاع، ریاستی، قومی یا بین الاقوامی طور پر رونما ہونے والے اہم واقعات سے وابسطہ ہوتی ہیں۔ اس میں نہ صرف یہ کہ سیاسی، اقتصادی، سماجی، تعلیمی بلکہ دیگر عمور پر بحث ہوتی ہے۔ اس سے قاری کو مختلف قسم کے حالات سے واقفیت ہوتی ہے۔ ان خبروں کو موضوع، مناسبت اور اہمیت کے اعتبار سے اخبار کے مختلف صفحوں میں جگہ دی جاتی ہے۔ مثلاً اہمیت کی حامل خبریں پہلے صفحہ پر جلی حروف میں ہوتی ہیں۔

اظہاررائے – اخبار کا دوسرا اور بہت ہی اہم حصّہ ہے، جس میں مختلف مصنفین اپنے رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس میں نہ صرف یہ کہ ایک مصنف اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے بلکہ وہ دوسرے مصنفین کے ساتھ ملکر ایک موضوع پر لکھتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہاں پر دوسرے طرز کے خیالات رکھنے والے مصنفین کے ساتھ بحث و تکرار بھی کی جاتی ہے جو اسی صفحہ کا حصّہ ہوتی ہے۔ بہت سے قارئین اس حصّے کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں کیونکہ اس میں خبروں پر تبصرہ کیا جاتا ہے، اخبار کے مدیر اپنے اداریہ تحریر کرتے ہیں۔ اعلیٰ سطح کے دانشور حالات حاضرہ کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔ مزاحیہ طور پر اس میں کارٹون بھی پیش کیے جاتے ہیں، اردو اخبارات حالات حاضرہ کی مناسبت سے اشعار بھی پیش کرتے ہیں۔ ایک قاری کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے اپنے خطوط کے لیے بھی جگہ ہوتی ہے۔ اس زمرہ میں lead article یا رہنما مضمون اور ماہرین کے انٹرویو بھی شامل ہوتے ہیں۔ سماجی، سیاسی، اقتصادی، معاشی، بزنس، اسپورٹس، ادویات، حفظان صحت، اہم اداروں، گورنمنٹ کی اسکیموں، الیکشن، قومی و بین الاقوامی اہم دنوں پر تبصرے وغیرہ پر رائے زنی ہوتی ہے۔

اشتہارات – قسم قسم کے اشتہارات اخبارات میں دیکھنے کو ملتے ہیں، جن میں کمپنیوں کے پراڈکٹس ان کمپنیوں کی خالی اسامیوں کے اعلان، مختلف ٹینڈر نوٹیفیکشنس، گھر و رشتہ کے اشتہار، اشیاءخوردونی، ادویات، روزمرّہ کے استعمالات کی اشیا، سوپر مارکیٹ سامل ہیں۔ ان اشتہارات کو سال کے مختلف موسموں میں مختلف بدلتے روپوں میں دیکھا جا سکتا ہے، جیسے عیدین و تہواروں کا موسم، اسکولوں کے شروعات کا موسم، شادیوں کا موسم۔ غرض ہر وقت میں خاص قسم کے پراڈکٹس پیپرکی زینت بنے نظر آئیں گے جس میں طلبہ کے لیے اسکولوں و کالج کے اشتہارات اور نوکری سے متعلق اشتہار کافی مقبول نظر آتے ہیں۔

کھیل کود – اس صفحہ میں کھیل کود کی خبریں اور ان پر مبنی مضامین لکھے جاتے ہیں۔ جس کا تعلق حالانکہ اکیڈمک سے کم لیکن نوجوانوں سے زیادہ ہوتا ہے، جس میں انکے دوست یا ہم عمر حصّہ لیتے اور دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔

تفریح و Entertainment- اخبار کا وہ حصّہ ہے جو سیر و تفریح، فلم بینی، ستاروں کی خبروں وغیرہ سے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے اور نوجوانوں کی دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔

ضمیمہ Supplement- اپنی مخصوص قارئین کو مدّنظر رکھتے ہوئے اخبار مختلف ڈیزائن ترتیب دیتے ہیں جیسے منصف اخبار میں مینار نور (مذہبی ایڈیشن)، گھرآنگن(خواتین کے لیے)، نقوش(سیاسی، سماجی، تہذیبی اور فلمی جھلک)، گلدستہ(ادبی ایڈیشن)، آئینہ شہر، سائنس تکنالوجی اور طب (سائنسی صفحہ)،نئی منزلیں نئے قدم جیسے سپلیمنٹ چھپتے ہیں تو دی ہندو جیسے انگریزی اخبار میں سینیما (فلم سے متعلق)،ڈاون ٹاون(شہری مسائل)،ایجوکیشن پلس(تعلیم سے متعلق)، فرائڈے ریویو(ہفتہ واری اسپیشیل)، پراپرٹی پلس (ریل اسٹیٹ سے متعلق)، میٹروپلس(بڑے شہروں سے متعلق)، میگزین(میگزین نما آرٹیکلس)، ینگ ورلڈ(چھوٹی سی دنیا)، وغیرہ چھپتے ہیں۔

                میں نے جب اخبار کے اتنے سارے حصہ دیکھے تو یہ جستجو ہوئی کہ دیکھوں کہ آیا آج کل کے نوجوان و طلبہ کس طرح اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس ضمن میں میری نظر دو بہت ہی موزوں مطالعات پر پڑی ایک ایڈیگو و دیگر کا تھا جنہوں نے 2015 میں نائجیریا میں نوجوانوں کے اخبارات سے متعلق مطالعات کو لیکر کی تھی اور دوسرا مطالعہ ہمارے ہی ہم وطن کرشنامورتی نے 2015 میں ہی کرناٹکا میں کیا تھا۔

                کرشنامورتی کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ طلبہ مقامی زبان کنڑا کے علاوہ انگریزی اور کچھ حد تک ہندی اخبارات کا بھی مطالعہ کرتے ہیں، زیادہ تر اخبارات کا مطالعہ صبح کے وقت ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ کے بجائے زیادہ تر طلبہ طبع شدہ فارمیٹ پسند کرتے ہیں۔ انکے پسندیدہ خبروں میں تعلیم، کھیل کود، سیاست، قومی و بین الاقومی خبریں رہتی ہیں۔ جبکہ ایڈیٹر کو لکھے گئے خطوط کم سے کم پڑھے جاتے ہیں، جبکہ انکے پڑھنے کے مقاصد اطلاعاتی، عام معلومات حاصل کرنا اور تعلیمی ہیں۔ کرشنامورتی کی اسٹڈی سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وقت کی کمی اور طلبہ کو اخبارات کی عدم موجودگی کی وجہ سے طلبہ اخبارات کو کم پڑھ پاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی معلوم کیا ہے کہ اخبار بینی سے زبان دانی بہتر ہوتی ہے اور تبادلہ خیال کی صلاحیت بڑھتی ہے اور اخبارات موجودہ صورت حال کو بہتر طور پر پیش کرتے ہیں اور اس سے طلبہ کو اپنے پیشہ کو انتخاب کرنے میں سہولت ہوتی ہے۔ اخبارات سے زبان دانی کے بہتر ہونے کی دریافت کے پیش نظر مجھے یہ گمان گذرتا ہے کہ انگریزی اخبار دی ہندو کے Know your English کی طرح اگر اردو اخبارات 'اپنی اردو جانیے' کے نام سے ایک کالم شروع کریں تو عام قاری اور خاص کر طلبہ کے لیے بہت بہتر ہوگا۔

                ایڈیگو و دیگر کے مطابق اخبارات موجودہ خبروں اور دلچسپی کے باعث اطلاعات، تجزیات، تعلیمی تفصیلات، تفریح، وغیرہ کے لیے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ اخبارات سماج کے ہر طبقہ کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں، وہیں میری نظر میں حوالہ جاتی کتب مخصوص کلاس کے طلبہ کی تعلیمی ضروریات کو ہی پورا کرتے ہیں۔ انکے مطابق کھیل کود، سیاسی اقتصادی، بین الاقوامی مضامین زیادہ پڑھے جاتے ہیں اور طلبہ مذہبی اور جرائم سے متعلق مضامین میں دلچسپی نہیں لیتے۔ یہی حال بھارتی مسلم طلبہ کا بھی دیکھا جاسکتا ہے جو جرائم کی نیوز سے کنارہ کشی کرتے ہیں اور دینی معلومات کے صفحہ کو احترام کے طور پر اٹھا کر رکھ دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ ایڈیگو و دیگر کے مطابق حالانکہ طلبہ اخبار نہیں خریدتے، لیکن پڑھتے ضرور ہیں، جو کسی سے لیکر، دوستوں سے حاصل کرکے، پڑوسیوں سے لیکر یا لائبریری یا نیوز اسٹانڈ پر جاکر پڑھتے ہیں اور تقریباً یہی صورتحال بھارت میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ طلبہ ہارڈ کاپی اور آن لائن ورژن دونوں کا استعمال کرتے ہیں لیکن ہارڈ کاپی کو ترجیح دیتے ہیں، اور ہمارا تجربہ بھی یہی کہتا ہے۔

                اب طلبہ کے اخبار بینی کو بحث کرنے کے بعد یہ دیکھنا ضروری ہے کہ دنیا کے علم کا وہ کونسا گوشہ ہے جو ان اخبارات میں نہیں ملتا؟ فلاسفی – مذہب و فلسفہ کو سمجھنے کا نام ہے اور اخبارات بین مذہبی اور مختلف فلسفہ والے افراد کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ علم سیاسیات، سیاست کے طور طریقوں کو بتلاتا ہے تو جو خبریں چھپتی ہیں وہ ان کو عملی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ کامرس اور بزنس مینیجمنٹ میں اقتصادیات و معاشیات کے اصول و ضوابط پڑھے جاتے ہیں اور اخبارات ان کی موجودہ صورت حال کو پیش کرتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کے شعبہ میں درس و تدریس سے وابسطہ تمام گوشوں کو سمجھایا جاتا ہے، جن کے عملی تقاضوں کی جھلک اخبارات میں نظر آتی ہے۔ سائنس و تکنالوجی کے مختلف مضامین بھی اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ آرٹس، کرافٹ، ہوم سائنس کے شعبوں کے نئے گوشے بھی انہی اخبارات میں نظر آتے ہیں۔ سماجی علوم کے مضمون جیسے سوشیالوجی میں سماج کے مختلف ارکان کے تعلق کو پڑھا جاتا ہے، جس کے کئی پہلو اخبار میں مضامین اور خبروں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں جبکہ اخبارات میں ہر طرح کا علم نظر آتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ حوالہ جاتی کتب میں بنیادی معلومات ہوتی ہیں، جبکہ اخبارات میں میں اطلاقی سطح کی انفارمیشن ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس جو ہمارے موجودہ دور کی تعلیم کے پراڈکٹس ہیں، صرف اتنے ہی قابل ہوتے ہیں کہ اپنے مضمون کی حد تک چیزیں سمجھتے ہیں جبکہ اخبارات میں ان تمام مضامین سے بڑھ کر کئی گناہ زیادہ معلومات ہوتی ہیں۔ اس پس منظر میں مجھے لگتا ہے کہ ہمارے موجودہ دور کی تعلیم تعلیم نہیں ہے بلکہ صرف خواندگی ہے۔ ہمیں تعلیمی نظام میں مزید بہتری لانی چاہیے تاکہ ہمارے طلبہ اس قدر قابل ہوں کہ وہ اخبارات کو سمجھ سکیں اور یہی مکمل تعلیم ہوگی۔



مصنف پروفیسر مشتاق احمد آئی پٹیل، بطور پروفیس ان ایجوکیشن، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،گچی باولی، حیدرآباد میں کارگر ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ patel_mushtaq@outlook.com

This article was published in Daily Munsif, Hyderabad on 19-12-2015