Posts

Showing posts with the label Newspaper article

کووڈ 19 ‏۔۔۔۔۔۔ ‏اس سے ‏ابھرنے والی صورتحال سے نمٹنے میں طلبہ کی ذہنی صحت کا کردار

Image

'مانو' کے ابتدائی دور کے منظر بہ منظر 'ابھرتے نقوش'

اردو انگریزوں کے دور میں اس ملک کی ایک قومی زبان تھی۔اگر اس دور کے  زر تبادلہ یعنی سکے اور نوٹ ہماری نظر سے گزریں تو ہمیں اْس کی چھاپ ملتی ہے۔ عام عوام ہی کیا اس دور کے ایڈمنسٹریٹیو آفیسرس کو بھی اردو پڑھنا لازمی تھا۔برِّصغیر کے اکثر مقامات جن میں پورا شمالی ہندوستان بشمول متحدہ صوبہ (موجودہ اتر پردیش، بہاروغیرہ) اور بالخصوص پنجاب و سندھ کے علاقے جو موجودہ ہند و پاک میں ہیں اردو کے گڑھ تھے۔اسکے علاوہ بھی کشمیر سے لے کر میسور تک اور افغانستان سے لے کر بنگال تک اردو ایک اہم رابطے کی زبان تھی۔حیدرآباد دکن تو اردو کے لیے زرخیز زمین تھی ہی ، جہاں پورے برصغیر کی سب سے پہلی اردو یونیورسٹی یعنی عثمانیہ یونیورسٹی قائم تھی۔تب کے حالات الگ تھے لیکن آزادی کے بعد جب مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) یعنی اردو یونیورسٹی دوبارہ قائم ہوئی تو اُس وقت اردو کے لیے اتنے سازگار حالات نہیں تھے۔اُن حالات میں اُردو یونیورسٹی کا قیام ایک جوکھم بھرا کام تھا جس کوسمجھنے میں شمیم جیراجپوری، سابق وائس چانسلر، مانو کی کتاب 'ابھرتے نقوش' کو دیکھا جائے تو ہمیں اس وقت درپیش مشکلات اور حالات کا قطعی ان

اردو یونیورسٹی ۔یہ علم کا شہر گھر ہے میرا

Image
فضل تابشؔ صاحب نے بستی کا تصور کچھ اس طرح پیش کیا ہے، جو غالباً حیدرآباد شہر کے تصور کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ میرے چاروں اور مکانوں سے آتی آوازیں  سڑکوں پر لہراتی ان گنت موٹر کاریں اسکولوں سے چھنتی زندہ ہنستی بھن بھن  لیمپ پوسٹ سے بہتی جگمگ دھارا  ہنستے لوگوں سے بھرپور دوکانیں سڑکیں  اخباروں میں چھپنے والی اونچے انسانوں کی باتیں حیدرآبادملک کے چندخوبصورت شہروں میں گناجانے والاشہر،آبادی کی کثرت سے جانا جانے والا علاقہ، اپنی تعمیرات کے لیے بھی مشہورہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہم چیزوں کے لئے یہ شہرمقبولِ عام ہے۔اسکی زبان،تہذیب جس کی عکاسی کرنے میں موجودہ حکومت اور بطور خاص وزیراعلیٰ تلنگانہ اپنافخرسمجھتے ہیں۔ جہاں چار مینار کے دامن میں لاڈ بازار چوڑیوں کے لئے عالمی سطح پر شہرت رکھتا ہے، وہیں یہاں کی بولی بھی اپنے آپ میں دلکش ہے،جوکہ بالی ووڈ کی فلموں کی چاشنی بڑھانے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ ایک طرف تو یہ فلم انڈسٹری، کیمیائی انڈسٹری کاشہرہے اور ساتھ ہی 11 سے زائد مرکزی و ریاستی یونیورسٹیوں سمیت کئی ہم اداروں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں،تودوسری جانب یہ ترقی یافتہ آئی ٹی انڈسٹری کا ایک hub

کیاموبایل سے بہتر کوئی جلیس نہیں؟

Image
جلیس یا دوست وہ ہوتا ہے جو ہر وقت ہمارے ساتھ رہتا ہے ،چاہے وہ خوشی کا موقع ہو یا غم کے حالات ۔آج کل کا ماحول کچھ اسی طرح کا ہو گیا ہے کیابڑے، کیا چھوٹے یا کیا شادی کی خوشیوں کا ماحول یا غم کے اطلاعات پہنچانے کا موقع موبایل ہمیں ایک بہترین دوست کی طرح ساتھ دےرہا  ہے  اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ ایک دوست کی خصوصیات میں بھروسہ مند ہونا، قابل اعتماد، ایماندار اور وفادار ہونا بھی شامل ہے ۔ بغیر ان خصوصیات کے دوستی بھی قابلِ بھروسہ نہیں ہوتی ۔اگر یہ دیکھا جائے کہ آیا موبایل میں اس طرح کی خصوصیات پائی جاتی ہیں ؟تو ہاں ہم یہ بھروسہ کرسکتے ہیں کہ موبایل فون ضرورت کے وقت اپنوں سے رابطہ کرنے میں مدد دیتا ہے اور آپ کے ذریعے کیا گیا کال اگر گھر والوں کے لئے ہے تو گھروالوں سے ہی جڑے گا ،یعنی یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ غلط نمبر نہیں جوڑے گا، جب تک کہ آپ غلط نمبر نہیں ڈائل کریں گے ۔ یہ ہمارے دوستوں کی طرح ایماندار بھی ہوتا ہے اور ہماری باتوں کو خفیہ ہی رکھتا ہے انہیں افشاں نہیں ہونے دیتا ۔ موبایل ہمارا وفادار ہوتا ہے ، اور ہمارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا یا اگر غلطی سے کہیں چھوٹ بھی جائے تو 'مس کال&#

کیا اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم کی بڑھتی سطح سے طلبہ کے تناؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ؟

Image
تعارف تعلیمی نظام مختلف زمروں میں بند ہے۔ اس تعلیمی نظام کو پری پرائمری، پرائمری، اپر پرائمری، ہائی اسکول، سیکنڈری اسکول اور اعلیٰ تعلیمی نظام کے طور پر درجہ بند کیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی نظام میں ڈگری، پوسٹ گریجویشن، ایم فل، پی ایچ ڈی جیسے ڈگریاں شامل ہوتی ہیں۔ اس سے نچلے سطح کے تمام کورسس کو اسکولی تعلیم کا حصہ مانا جاتا ہے۔ ان دونوں نظام تعلیم میں آزادی کے بعد بھارت میں لگاتار سدھار پیدا ہوا ہے۔ یو جی سی کی ایک رپورٹ میں مندرجہ ذیل بات درج ہے۔ "بھارت میں، خاص طور پر آزادی کے بعد کے دور میں اعلیٰ تعلیم میں ، ایک غیر معمولی طریقہ سے اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے دنیا میں اس نظام کو اپنی ہی نوعیت کے سب سے بڑے نظام میں سے ایک بننے میں مدد ملی ہے۔" ) اشوز ، کنسرنس اینڈ نیو ڈائریکشنس- یوجی سی 2003 ( ۔ اس بدلتے نظام تعلیم میں ہمیں کئی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ پہلے اعلیٰ تعلیم خواص کے لئے ہی تھی ، اور اب یہ سب کو دستیاب ہے۔ پہلے بہت کم ادارے دیکھنے کو ملتے تھے جو اعلیٰ تعلیم دیتے تھے، مگر اب نہ صرف گورنمنٹ اور پرائیویٹ کالجس کے دو زمرے ہیں، بلکہ انکے ساتھ ساتھ مرکزی، ریا

بچوں میں تناؤ ! کیوں اور کیسے؟

Image
                        جب ہم کھیلتے کودتے، مسکراتے بچوں کو دیکھتے ہیں تو ہمارے بچپن کے دن تازہ ہو جاتے ہیں۔ سبھی والدین اور سرپرستوں کو لگتا ہے کہ بچپن بہت ہی خوشگوار اور بے فکر دور ہوتا ہے۔ جس میں نہ کمانے کی فکر نہ خرچ کرنے کی جھنجھٹ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے،    "آزاد ہیں فکروں سے، غم پاس نہیں آتا"؛ تو کوئی اور یوں کہتا ہے ، "بچپن کے دن بھی کیا دن تھے، اڑتے پھرتے تتلی بن کر"؛ تو کوئی اور اس طرح کہتا ہے ، "ہم بھی اگر بچے ہوتے تو نام ہمارا ہوتا گبلو،ببلو اور کھانے کو ملتے لڈّو"۔ یعنی یہ کے بچپن فکروں سے آزاد ہوتا ہے، کیونکہ نہ انکو کسی نوکری کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی بل کی ادائیگی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔  جسکی وجہ سے وہ فکروں سے آزاد ہوتے ہیں اور بالغ حضرات ہمیشہ سے ایک دباؤ میں رہتے ہیں۔ لیکن وہ دن گئے، اب تو بچوں میں بھی پریشانی اور فکر تناؤ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ تناؤ کیا ہے؟ تناؤ ایک محرک کی ادراک کے لئے ہمارا قدرتی، جسمانی ردعمل ہے، اور یہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ تناؤ نہ صرف بڑوں میں بلکہ بچوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔وقت پر اٹھنا، ت