Posts

Showing posts from March, 2018

'مانو' کے ابتدائی دور کے منظر بہ منظر 'ابھرتے نقوش'

اردو انگریزوں کے دور میں اس ملک کی ایک قومی زبان تھی۔اگر اس دور کے  زر تبادلہ یعنی سکے اور نوٹ ہماری نظر سے گزریں تو ہمیں اْس کی چھاپ ملتی ہے۔ عام عوام ہی کیا اس دور کے ایڈمنسٹریٹیو آفیسرس کو بھی اردو پڑھنا لازمی تھا۔برِّصغیر کے اکثر مقامات جن میں پورا شمالی ہندوستان بشمول متحدہ صوبہ (موجودہ اتر پردیش، بہاروغیرہ) اور بالخصوص پنجاب و سندھ کے علاقے جو موجودہ ہند و پاک میں ہیں اردو کے گڑھ تھے۔اسکے علاوہ بھی کشمیر سے لے کر میسور تک اور افغانستان سے لے کر بنگال تک اردو ایک اہم رابطے کی زبان تھی۔حیدرآباد دکن تو اردو کے لیے زرخیز زمین تھی ہی ، جہاں پورے برصغیر کی سب سے پہلی اردو یونیورسٹی یعنی عثمانیہ یونیورسٹی قائم تھی۔تب کے حالات الگ تھے لیکن آزادی کے بعد جب مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) یعنی اردو یونیورسٹی دوبارہ قائم ہوئی تو اُس وقت اردو کے لیے اتنے سازگار حالات نہیں تھے۔اُن حالات میں اُردو یونیورسٹی کا قیام ایک جوکھم بھرا کام تھا جس کوسمجھنے میں شمیم جیراجپوری، سابق وائس چانسلر، مانو کی کتاب 'ابھرتے نقوش' کو دیکھا جائے تو ہمیں اس وقت درپیش مشکلات اور حالات کا قطعی ان