Posts

Showing posts from 2016

About DSW - MANUU

محترم المقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز صاحب، ہمارے معزز مقررین پروفیسر سید محمد حسیب الدین قادر ی صاحب اور ڈاکٹر علیم اشرف جائسی صاحب، پروفیسر احتشام صاحب،ہمارے سبھی تدریسی وغیر تدریسی ساتھی حضرات، اس پروگرام کے منتظمین ریسرچ اسکالرس، طلباء و طالبات۔ اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ اللہ رب العزت کا کرم ہے اور میرے پیارے نبیؐ کا صد قہ  ہے کے آج اس پروگرام میں آپ تمام کے ساتھ موجود ہوں ۔ مضمون كے ماہرین کے درمیان موضوع سے متعلق گفتگو  کی جسارت نہیں چاہتا۔  چونکہ مجھے اپنے طلبہ کے سامنے پہلی بار یوں آنے کا موقعہ مل رہا ہے تو صدر جلسہ کی اجازت سے اپنے طلبہ کو اپنے آفس کے ذریعے کئے جانے والے كچھ اہم كاموں  کا ذکر پروگرام سے پہلے مختصراً طور پر ضرور کرنا چاہوں گا۔ DSW آفس کو کھلے ایک سال سے کچھ عرصہ ہی گزرا ہوگا، اور جس میں ، میں نے ڈین کی ذمہ داری پچھلے تین مہینوں سے سنبھالی ہے، جس میں ہم نے کچھ اہم کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں شکر گذار ہوں جناب وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر کا کہ انہوں نے ہمیں یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے باہر کی مختلف events میں ہمارے طلبہ کو حصہ لینے

Vote of thanks given after investiture ceremony of MANUU students union 2016-17

محترم المقام وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب، ہردلعزیز رجسٹرار ڈاکٹر شکیل احمد صاحب، محترمہ پروفیسر خدیجہ بیگم صاحبہ، ڈین برائے بہبودی طلبہ  پروفیسر فضل الرحمٰن صاحب، مانو طلبہ کی یونین کے نو منتخب اراکین، اساتذہ اکرام اور تمام حاضرین آداب و سلام۔ مجھے  حلف برداری کے اس پر اہم موقعہ کی آخری رسم کا حصّہ بننے پر بڑی خوشی ہے۔ طلبہ کے یونین کے اراکین کے انتخاب کے لئے کئے گئے اس الیکشن کے عمل کا انعقاد ڈی ایس ڈبلیو آفس کے تحت کیا گیا، اس کے لئے ہم اپنی آفس کی جانب سے سب سے پہلے محترم المقام وائس چانسلر کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ہمیں یہ ذمہّ داری دی بلکہ اس الیکشن کے ہر مرحلے میں ہماری مکمل طور پر رہنمائی کی یہاں تک کہ ہمیں پتہ چلا کہ انہوں نے اپنی ذاتی  اور ضروری مصروفیات کو بھی اس کام کے لئے  ملتوی کیا اور پورے عمل میں اور بالخصوص الیکشن کے دن ہمارے ساتھ رہے۔ سر ہم آپ کے بے حد ممنون و مشکور ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ امید رکھتے ہیں کہ آئندہ آنے والی سرگرمیوں میں بھی آپ ہماری رہنمائی فرمائیں گے۔ ڈاکٹر شکیل احمد صاحب بہت ہی کم عرصہ میں ہمارے کیمپس کے ایک مقبول عام رجس

کیا اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم کی بڑھتی سطح سے طلبہ کے تناؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ؟

Image
تعارف تعلیمی نظام مختلف زمروں میں بند ہے۔ اس تعلیمی نظام کو پری پرائمری، پرائمری، اپر پرائمری، ہائی اسکول، سیکنڈری اسکول اور اعلیٰ تعلیمی نظام کے طور پر درجہ بند کیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی نظام میں ڈگری، پوسٹ گریجویشن، ایم فل، پی ایچ ڈی جیسے ڈگریاں شامل ہوتی ہیں۔ اس سے نچلے سطح کے تمام کورسس کو اسکولی تعلیم کا حصہ مانا جاتا ہے۔ ان دونوں نظام تعلیم میں آزادی کے بعد بھارت میں لگاتار سدھار پیدا ہوا ہے۔ یو جی سی کی ایک رپورٹ میں مندرجہ ذیل بات درج ہے۔ "بھارت میں، خاص طور پر آزادی کے بعد کے دور میں اعلیٰ تعلیم میں ، ایک غیر معمولی طریقہ سے اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے دنیا میں اس نظام کو اپنی ہی نوعیت کے سب سے بڑے نظام میں سے ایک بننے میں مدد ملی ہے۔" ) اشوز ، کنسرنس اینڈ نیو ڈائریکشنس- یوجی سی 2003 ( ۔ اس بدلتے نظام تعلیم میں ہمیں کئی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ پہلے اعلیٰ تعلیم خواص کے لئے ہی تھی ، اور اب یہ سب کو دستیاب ہے۔ پہلے بہت کم ادارے دیکھنے کو ملتے تھے جو اعلیٰ تعلیم دیتے تھے، مگر اب نہ صرف گورنمنٹ اور پرائیویٹ کالجس کے دو زمرے ہیں، بلکہ انکے ساتھ ساتھ مرکزی، ریا

بچوں میں تناؤ ! کیوں اور کیسے؟

Image
                        جب ہم کھیلتے کودتے، مسکراتے بچوں کو دیکھتے ہیں تو ہمارے بچپن کے دن تازہ ہو جاتے ہیں۔ سبھی والدین اور سرپرستوں کو لگتا ہے کہ بچپن بہت ہی خوشگوار اور بے فکر دور ہوتا ہے۔ جس میں نہ کمانے کی فکر نہ خرچ کرنے کی جھنجھٹ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے،    "آزاد ہیں فکروں سے، غم پاس نہیں آتا"؛ تو کوئی اور یوں کہتا ہے ، "بچپن کے دن بھی کیا دن تھے، اڑتے پھرتے تتلی بن کر"؛ تو کوئی اور اس طرح کہتا ہے ، "ہم بھی اگر بچے ہوتے تو نام ہمارا ہوتا گبلو،ببلو اور کھانے کو ملتے لڈّو"۔ یعنی یہ کے بچپن فکروں سے آزاد ہوتا ہے، کیونکہ نہ انکو کسی نوکری کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی بل کی ادائیگی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔  جسکی وجہ سے وہ فکروں سے آزاد ہوتے ہیں اور بالغ حضرات ہمیشہ سے ایک دباؤ میں رہتے ہیں۔ لیکن وہ دن گئے، اب تو بچوں میں بھی پریشانی اور فکر تناؤ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ تناؤ کیا ہے؟ تناؤ ایک محرک کی ادراک کے لئے ہمارا قدرتی، جسمانی ردعمل ہے، اور یہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ تناؤ نہ صرف بڑوں میں بلکہ بچوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔وقت پر اٹھنا، ت