'مانو' کے ابتدائی دور کے منظر بہ منظر 'ابھرتے نقوش'
اردو انگریزوں کے دور میں اس ملک کی ایک قومی زبان تھی۔اگر اس دور کے زر تبادلہ یعنی سکے اور نوٹ ہماری نظر سے گزریں تو ہمیں اْس کی چھاپ ملتی ہے۔ عام عوام ہی کیا اس دور کے ایڈمنسٹریٹیو آفیسرس کو بھی اردو پڑھنا لازمی تھا۔برِّصغیر کے اکثر مقامات جن میں پورا شمالی ہندوستان بشمول متحدہ صوبہ (موجودہ اتر پردیش، بہاروغیرہ) اور بالخصوص پنجاب و سندھ کے علاقے جو موجودہ ہند و پاک میں ہیں اردو کے گڑھ تھے۔اسکے علاوہ بھی کشمیر سے لے کر میسور تک اور افغانستان سے لے کر بنگال تک اردو ایک اہم رابطے کی زبان تھی۔حیدرآباد دکن تو اردو کے لیے زرخیز زمین تھی ہی ، جہاں پورے برصغیر کی سب سے پہلی اردو یونیورسٹی یعنی عثمانیہ یونیورسٹی قائم تھی۔تب کے حالات الگ تھے لیکن آزادی کے بعد جب مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) یعنی اردو یونیورسٹی دوبارہ قائم ہوئی تو اُس وقت اردو کے لیے اتنے سازگار حالات نہیں تھے۔اُن حالات میں اُردو یونیورسٹی کا قیام ایک جوکھم بھرا کام تھا جس کوسمجھنے میں شمیم جیراجپوری، سابق وائس چانسلر، مانو کی کتاب 'ابھرتے نقوش' کو دیکھا جائے تو ہمیں اس وقت درپیش مشکلات اور حالات کا قطعی اندازہ ہوگا۔ اس یونیورسٹی کی تعمیر میں ایک طرف محبّان اردو کی انتہا کی خواہشات اور دوسری جانب حکومت کے قوانین و ضوابط کی حد بندیوں میں کام کرنا دشوار کن مسئلہ تھا۔بقول جیراجپوری"کسی ادارے کی منصوبہ بندی ایک بہت ہی اہم عمل ہے اس کے لیے کافی سوجھ بوجھ اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے، خاص طور سے صحیح وقت پرصحیح فیصلے کرنا پھر ان پر ثابت قدم رہنا نہ صرف دشوارکن بلکہ صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔یہ عمل اس وقت اور بھی دشوارترین ہو جاتا ہے جب کسی ادارے کی ابتداء ہی حرف اوّل سے کرنی ہو۔"
اس کتاب میں ہیں مصنف نے یونیورسٹی کے آغاز میں جن کارہائے نمایاں کو انجام دیا اور جن اشخاص نے مختلف رولز میں یونیورسٹی کے اندر یا باہررہ کر یونیورسٹی کے لئے کام کیا یا ساتھ دیا اُن سب کا تذکرہ ملتا ہے۔ علیگڑھ سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر نے ملک کے اس نئے حصہ میں کام کرتے ہوئے ، ملک کے طول و عرض میں اِس یونیورسٹی کو کس طرح پھیلایا اُسے بھی بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ جس طرح ایک کسان اپنے زمین کی حد بندیوں کو سنبھال کر رکھتا ہے، پھر اس میں وہ بیج بوتا ہے، اور جب کھیت کے پودوں میں کونپلیں پھوٹتی ہیں ،تو اْسے دیکھ کر مسرور ہوتا ہے ، وہی حال ایک وائس چانسلر کا دیکھا جاسکتا ہے، جو جدوجہد کے بعد یونیورسٹی کی زمین حاصل کرتا ہے ، اور پھر اس میں نصابی کارکردگی کا آغاز ایک فاصلاتی بی اے پروگرام میں ایڈمیشن نوٹیفیکیشن کے بعد کراتا ہے اور اسمیں ڈھائی ہزار سے زائد طلبہ داخلہ لیتے ہیں تو اُسکی خوشی کی انتہا نہیں ہوتی ، یہ اُنکے لکھے تاثرات سے صاف نظر آتا ہے۔وائس چانسلر صاحب کو مقامی یونیورسٹیوں میں حیدرآباد سنٹرل یونیوسٹی (HCU)، بی آر امبیڈکر یونیورسٹی (BRAOU)، اِندرگاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے ریجنل سنٹر حیدرآباد ( RC IGNOU)، اور عثمانیہ یونیورسٹی سے کافی ساتھ ملا تو قومی سطح پر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) اور وِزارت انسانی فروغِ وسائل (HRD) کا بھی کافی ساتھ ملا۔ انہوں نے جس خوبی سے میڈیا میں یونیورسٹی کی کارگزاریوں کا احاطہ کیا ہے وہ قابل مطالعہ ہے۔اُس دور کے ملک کے مختلف اخباروں سے متعلق معلومات ملتی ہیں جو اردو یونیورسٹی کے معاون و مددگارتھے۔ لیکن اس کتاب کے مطالعہ کے بعد خود اِنکی دور اندیشی اور سب کوساتھ لے کر چلنے کی عادت کی سراہنا کی جاسکتی ہے۔ مختلف گوشوں سے جو انکو ساتھ ملا اسکا ذکر کتاب کے میں مختلف صفحات میں ملتا ہے۔
اس کتاب میں اردو کی بہت ساری مشہور شخصیات کا ذکر دیکھا جاسکتا ہے جو اُس وقت کافی مقبول اور معروف تھیں۔اس میں دو ایسے اشخاص کا ذکر بھی ہے جو آگے چل کر اِسی یونیورسٹی کے وائس چانسلرز بھی بنے،وہ ڈاکٹر اے ایم پٹھان اور ڈاکٹر اسلم پرویز ہیں۔ اس کے علاوہ اسی یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر محمد سلیمان صدیقی صاحب کابھی کئی جگہوں پر کئی کاموں کے پسِ منظر میں ذکر ہے جو بعد میں تاریخی عثمانیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے۔ اس کے علاوہ بھی اس کتاب میں مختلف ریاستوں کے گورنرز،ایمپیز(MPs)،میڈیا و اخبارات سے وابسطہ افراد،سوشیل ورکرز،پروفیسرحضرات اورملک بھر کے معززتعلیم دان حضرات کا ذکر ملتا ہے، جن کی اردو کی تئیں خاصی دلچسپی تھی، یہ قاری حضرات کے لئے اُس دور کے اردو ایکسپرٹس کا ایک اہم سورس (source) بھی ہو سکتا ہے۔
اس کتاب کو دس ابواب میں رکھا گیا ہے، جس میں یونیورسٹی کے ابتدائی منازل کا خیر مقدم،سمپوزیم، علاقائی دفاتر،تعلیم نسواں،کمیٹیوں کا قیام،تعلیمی سرگرمیوں اور بڑھتے اقدام کے طور پر مواد پیش کیا گیا ہے۔یہ کتاب اردو سے محبت رکھنے والے اشخاص ، اردو یونیورسٹی سے لگاؤ رکھنے والے افراد اور اردو کی تاریخ جاننے کے لئے بیتاب ریسرچ اسکالرز کے لیے کافی کارآمد ہے۔حالانکہ یہ یونیورسٹی کے ابتدائی دنوں میں لکھی اور شائع کی گئی کتاب ہے لیکن اِسے پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ اُس دور کے تمام مناظر ہمارے سامنے آگئے ہوں اور موجودہ دور کی اِس یونیورسٹی کے ترقی کا راستہ صاف ہوتا نظر آتا ہے۔ یہی وہ دور تھا جس نے اس یونیورسٹی کو کسی لینگویج یونیورسٹی بنانے کے بجائے دور حاضر کی ضروریات کو پورے کرنے والی ملک کی ایک اہم یونیورسٹی بنا دیا۔
اس کتاب میں مولانا آزاد کی تصویر کے ساتھ یو نیورسٹی میں کارگزار افراد ، مختلف سمپوزیم و اہم میٹنگ کے دوران لی گئی تصاویر اور یونیورسٹی کے دفاتر کی تصاویر بھی دی گئی ہیں جو ہمیں اْس دور میں لے جاتی ہیں۔ یہ کتاب حیدرآباد میں وقوع پذیر تبدیلیوں کی جھلک بھی پیش کرتی ہے، جہاں اس شہر کی اہم اردو بستیوں کا ذکر اور یونیورسٹی کی دی گئی زمین کے اطراف بڑھتی زمینات کی قیمتوں پر تبصرہ بھی نظر آتا ہے۔
کتاب کا نام: مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی "ابھرتے نقوش "
مصنف:پروفیسر ایم۔شمیم جیراجپوری
ناشر:شعبہ رابطہ عامہ، مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی
صفحات 200
Published in Munsif Daily, Hyderabad on 15.03.2018 available in the supplement page 4 at https://munsifdaily.in/epapers/archive.php