کیا اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم کی بڑھتی سطح سے طلبہ کے تناؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ؟

تعارف
تعلیمی نظام مختلف زمروں میں بند ہے۔ اس تعلیمی نظام کو پری پرائمری، پرائمری، اپر پرائمری، ہائی اسکول، سیکنڈری اسکول اور اعلیٰ تعلیمی نظام کے طور پر درجہ بند کیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی نظام میں ڈگری، پوسٹ گریجویشن، ایم فل، پی ایچ ڈی جیسے ڈگریاں شامل ہوتی ہیں۔ اس سے نچلے سطح کے تمام کورسس کو اسکولی تعلیم کا حصہ مانا جاتا ہے۔ ان دونوں نظام تعلیم میں آزادی کے بعد بھارت میں لگاتار سدھار پیدا ہوا ہے۔ یو جی سی کی ایک رپورٹ میں مندرجہ ذیل بات درج ہے۔
"بھارت میں، خاص طور پر آزادی کے بعد کے دور میں اعلیٰ تعلیم میں ، ایک غیر معمولی طریقہ سے اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے دنیا میں اس نظام کو اپنی ہی نوعیت کے سب سے بڑے نظام میں سے ایک بننے میں مدد ملی ہے۔" )اشوز ، کنسرنس اینڈ نیو ڈائریکشنس- یوجی سی 2003(۔
اس بدلتے نظام تعلیم میں ہمیں کئی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ پہلے اعلیٰ تعلیم خواص کے لئے ہی تھی ، اور اب یہ سب کو دستیاب ہے۔ پہلے بہت کم ادارے دیکھنے کو ملتے تھے جو اعلیٰ تعلیم دیتے تھے، مگر اب نہ صرف گورنمنٹ اور پرائیویٹ کالجس کے دو زمرے ہیں، بلکہ انکے ساتھ ساتھ مرکزی، ریاستی، خانگی ،ڈیمڈ یونیورسٹز بھی ان علوم کے مختلف شعبہ جات جیسے آرٹس، سائنس، کامرس، میڈیکل، انجنیرنگ وغیرہ میں تعلیم دے رہے ہیں۔ ورلڈ کلاس ماہر تعلیم ہمارے ملک میں بھی موجود ہیں ، جس کی مثالیں آئی آئی ٹیز اور آئی آئی ایمز سے تعلیم یافتہ اشخاص ہیں۔ ہمیں یہ جان کر بھی بہت ہی خوشی ہوتی ہے جب اقوام متحدہ جیسا ادارہ ہمارے مرحوم صدرِ جمہوریہ ہند ڈاکٹر اے۔پی۔جے عبدلکلام کے یوم پیدائش کو ' ورلڈ سٹوڈنٹس ڈے' قرار دیتا ہے، اور ہمارے ملک میں تعلیم کی اہمیت اس سے اجاگر ہونی لازمی ہے۔
اس بدلتے ہوئے ماحول میں پہلی نسل کے طلبہ، پسماندہ طبقات کے طلبہ، دیہی و شہری طلبہ، پردہ نشین خواتین، الگ الگ جماعتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ ایک جگہ یعنی اعلیٰ تعلیمی ادرہ میں جمع ہوتے ہیں، جو اپنے خیالات، احساسات اور جذبات اپنے ساتھ لاتے ہیں، جن کے پورا ہونے سے ان پر مثبت اور پورا نہ ہونے سے ان پر منفی اثرات ہوتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس اعلیٰ تعلیم سے منسلک آجکل کے نوجوان کے رہن سہن کا طریقہ کار بدل رہاہے، اس دور میں پڑھائی کا طریقہ کار بھی بدل رہا ہے، امتحانات لینے کے طریقے، اور ٹکنالوجی کا استعمال، بدلتے نصابِ تعلیم وغیرہ سے بھی اعلیٰ تعلیم اثر انداز ہو رہی ہے۔ اچھی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے ان سبھی چیزوں سے موافقت حاصل کرنا ضروری ہے، اگر اس میں کوئی کمی بیشی رہ جائے تو طلبہ میں تناؤ کی شروعات ہوتی ہے۔

ڈیوڈروبوتھم اور کلاری جولین (2006) نے جرنل آف فردر اینڈ ہائیر ایجوکیشن میں اعلیٰ تعلیمی سطح میں طلبہ پر درپیش تناؤ کا ایک تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ جس میں انہوں نے طلبہ پر ہونے والے تناؤ کو امتحانات سے متعلق تناؤ ، مالی مسائل سے جڑا دباؤ ، یونیورسٹی جانے کے بعد ہونے والی عبوری تبدیلیوں اورپڑھائی سے متعلق تبدیلیوں کے طور پر زمرہ بند کیا ہے۔ بدلتے اعلیٰ تعلیم میں پیش آنے والے تناؤ کو اداراتی، اکیڈیمک اور ذاتی تناؤ کے طور پر اس مضمون میں بحث کیا گیا ہے۔



اداراتی تناؤ اور طلبہ
جب طالب علم اپنے گھر سے نکل کر ہاسٹل میں رہنے لگتا ہے تو اسے اپنے گھر سے دوری ستاتی ہے۔ پھر وہاں پر ملنے والا کھانا بھی انکے گھروں سے مختلف ہوتا ہے، جیسے ہمارے ملک کے شمالی، جنوبی، مغربی اور مشرقی حصّوں کے کھانے کے پکوان مختلف ہوتے ہیں۔ کھانے کے طریقہ میں تبدیلی، ان کو اڈجسٹ کرنے میں پریشانی پیدا کرتی ہے۔ طلبہ نئی جگہ پر اپنی پڑھائی اور آرام کے درمیان تال میل نہیں کرپاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی نیند میں تبدیلی جو کمی یا زیادتی کے طور پر ہوتی ہے، نئی پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ اپنے روزمرہ کی زندگی میں وہ ذاتی مشغلوں میں شامل نہیں ہو پاتا، اگر ہو بھی جاتا ہے تو اس کی وجہ سے پڑھائی میں رکاوٹ پڑ جاتی ہے۔ اس وجہ سے طالب علم کو اپنے والدین کی توقعات پورا نہ کر پانے سے نئے مسائل پیش آتے ہیں۔ اگر طلبہ میں قریبی اور گہرے دوستوں کی کمی ہو تو وہ اپنے مسائل ایک دوسرے سے بانٹ نہیں پاتے یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ انکے دوستوں میں عدم تعاون ہو تو بھی وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ اگر انکے ساتھی جیسے ہاسٹل میں کمرے کے ساتھیوں کے ساتھ تنازعات ہوں تو بھی اس کا اثر انکی پڑھائی پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر قریبی لوگوں میں کشیدگی جیسے دوستوں میں آپسی جھگڑوں سے بھی انکی زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ آج کے دور میں کالجس میں لیڈیز روم کا نہ ہونا، صاف ستھرے بیت الخلائ کی کمی بھی طلبہ کی پڑھائی پر اثر ڈالتی ہے کیونکہ طلبہ کو انکے دن کا بیشتر وقت اپنے کالجس میں گذارنا ہوتا ہے ۔ یعنی کل ملا کر انکے اطراف میں ہونے والی تمام سرگرمیوں میں تبدیلیاں، جو انکے ادارہ سے جڑی ہوں، وہ ان پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا اثر انکی ذاتی صحت میں کمی کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو تناؤ کا مظہر بن کر ابھرتا ہے۔

طلبہ پر ہونے والے اکیڈمک تناؤ
اوپر لکھی گئی تناؤ کی وجوہات کے علاوہ بھی ایک ادارہ میں دورانِ تعلیم طلبہ میں تعلیم سے متعلقہ مزید تناؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس میں چند ایک کا ذکر کرنا ضروری ہے ۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ طلبہ کو تدریس کے دوران اساتذہ کی طرف سے استعمال کی گئی زبان کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے، جو پڑھائی کے دوران دلچسپی میں کمی پیدا کرتی ہے۔ یہ اکثر اس وقت ہوتا ہے جب طالب علم مادری زبان تعلیم سے نکل کر انگریزی جیسی زبان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لگتا ہے۔ کلاس کے لکچر، کتابوں کا مواد اسکے لئے ایک رکاوٹ بن کر ابھرتا ہے۔ حالانکہ مطالعہ ایک بھرپور دل لگی کا عمل ہونا چاہیے لیکن مطالعہ سے لطف اندوز ہونے میں ناکامی طلبہ کو پڑھائی سے دور لے جاتی ہے۔ طلبہ کو ہوم ورک، کلاس ورک دیے جاتے ہیں، جس کا دباؤ ان پر کلاس ورک اور پریزنٹیشنز کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ کبھی کبھار اعلیٰ تعلیم میں طلبہ اپنے اساتذہ کے ساتھ غیر ضروری مباحثہ کر بیٹھتے ہیں جس سے انکے درمیان کمزور تعلقات بنتے ہیں۔ اور وہ تعلیم سے دور بھاگتے ہیں، یہاں تک کہ کلاسوں کو چھوڑتے یا وہاں سے غائب ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک غیر علمی عمل ہے، اور طلبہ کو چاہیئے کہ وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ بہت اچھے روابط بنا کر رکھیں، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ عالموں کی صحبت سے علم حاصل ہوتا ہے جیسے عطار کی صحبت سے خوشبو۔
سب سے پہلے تو طلبہ یہ طئے نہیں کرپاتے کہ انکو کتنا وقت پڑھائی میں لگانا ہے اور فرصت کا وقت کیسے گذارنا ہے۔ یعنی مطالعہ اور فرصت کے اوقات کو متوازن کرنے میں ناکامی انکو ایک مسئلہ کے طور پر پیش آتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ زائد مطالعہ طلبہ پر کثیر بوجھ ڈالتا ہے، اور وہ مطالعہ پر توجہ مرکوز نہیں کر پاتے ہیں، جسکی وجہ سے انکی کلاس روم کارکردگی غیر اطمینان بخش ہو جاتی ہے۔ امتحانات سے متعلق پریشانیاں جیسے بدلتے امتحانات کے پیٹرن، مسابقتی دوڑ، اسکے چلتے امید سے کم گریڈ حاصل کرنا بھی تناؤ پیدا کرسکتے ہیں۔

تناؤ کے ذاتی ذرائع
اسکے علاوہ طلبہ اپنے ذاتی مسائل کی بنیاد پر بھی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خراب صحت کے باعث وہ اپنے پڑھائی میں دلچسپی نہیں پیدا کرپاتے جو کہ ایک عام طالب علم میں ہونی چاہیے۔ جیسے کہ وہ بچہ جو خرابی صحت کا شکار ہوتا ہے ، پڑھائی یکسوئی کے ساتھ نہیں کر پاتا ۔ بعض اوقات میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ طلبہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ غیر مناسب ایڈجسٹمنٹ کرتے ہیں جسکی وجہ سے بھی تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔اپنے دئے گئے کام کے ڈیڈ لائن یا نشانات کو پورا کرنے سے قاصر رہنے کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ بھی فرد سے جڑے خاندانی مسائل بھی ان کی پریشانی اور تناؤ کا باعث بن جاتے ہیں۔ جیسے بہت سارے فیمیلی ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بچوں سے جلدی پڑھائی ختم کرواکر نوکری پیشہ کروانے کی امید کرتے ہیں۔ ایسے بچے مسابقتی امتحانات میں وقت نہیں لگا پاتے جس کی وجہ سے وہ آگے پیشہ ورانہ زندگی میں بہت کم اوپر جاپاتے ہیں، اور ٹیلنٹ ہونے کے باوجود صرف کلیریکل clerical یا نچلی سطحوں کی نوکریوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اگر ڈگری امتحانات کے بعد کچھ صبر سے کام لیا جائے اور نوجوان بچوں کو کچھ وقت دیا جائے تو وہ بینکنگ، پبلک سروس کمیشن، ہائر ایجوکیشن کے داخلاتی ٹیسٹس میں شامل ہو کر نہ صرف یہ کہ اپنی زندگی بلکہ اپنے خاندان، سماج کے افراد کے لئے بھی مشعلِ راہ بن سکتے ہیں۔ چونکہ اس عمر میں زیادہ تر طلبہ اپنے والدین کے دئے گئے مالی امداد پر ہی انحصار کرتے ہیں، تو مالی مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ چند طلبہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کمائی کا بار بھی اٹھاتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں زندگی کی نئی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے، اگر اس کو نہ نبھا پائیں تو وہ نئے دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اسکے علاوہ طلبہ میں اپنے پس منظر سے متعلق سماجی اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، جیسے کہ ہمارے ہندوستانی سماج میں مذہب و ملت اور دیگر ذات پات کی بنیاد پر کافی تفرقہ ہیں، جسکا اثر طلبہ پر بھی پڑتا ہے۔ ایک تو پچھلے \نچلے طبقات کے طلبہ نفیساتی طور پر اپنے آپ کو کمزور پاتے ہیں، کیونکہ 'ورنا فلسفہ 'کے تحت پچھلی ذاتوں کو پیروں سے پیدا شدہ مانا جاتا ہے اور برہمنوں کو سر سے پیدا شدہ۔ یہ حقیقت بھی ہے کے لوگ دماغ کو اور دوسرے اعضا پر ترجیح دیتے ہیں، خاص کر تعلیمی میدان میں۔ اسلئے پچھلے طبقہ کے لوگ اپنے آپ کو بہت کمزور اور کمتر سمجھنے لگتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی سالوں کی لگاتار محرومی کے باعث یہ طلبہ اب اپنے کو تعلیم میں ابھارنے سے قاصر ہیں۔ وہیں اقلیتی طلبہ انکے جذبات و خیالات کو نہ سمجھنے والے اساتذہ کی موجودگی سے تناؤ کے زیر اثر رہتے ہیں۔ ہمارے طالبِ علمی کے دور میں ہم نے دیکھا ہے کہ عید کے دن ہمارے ساتھی جو انجنیرنگ کررہے تھے ان کے پریکٹیکل امتحانات ہوا کرتے یعنی یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ان کالجس میں عید کے دن کی اہمیت کو سمجھنے والے اساتذہ بھی نہ تھے، تو رمضان کی تھکاوٹ سے گذرنے والے طلبہ کے درد کو کون سمجھ سکتا تھا؟ ساتھ ہی ساتھ آج کے دور میں مسلمان طلبہ کی اکثر سرگرمیوں کو ایک شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، اور کئی ذہین طلبہ بھی اس شک کے دائرہ میں آکر اپنا کیرئیر گنوا چکے ہیں۔ حیدرآباد، بیجاپور اور دیگر مقامات میں محض شک کی بیناد پر فسادات کے دوران گرفتار کئے گئے بچے اپنے انجنیرنگ، میڈیسن جیسے کورسس کا بہترین پیریڈ کھو چکے ہیں۔ حالانکہ انکی معصومیت بعد میں ثابت ہو گئ لیکن کیا ہم انکی تعلیم کا وہ جذبہ بھی واپس لاسکتے ہیں؟ اس لئے سماج کے افراد کو چاہیے کے اپنے قوم کی ملکیت یعنی طلبہ کی حفاظت کریں۔ طلبہ کی ایک اور قسم ہے جو جسمانی طور پر معذور ہوتے ہیں اور ادارہ میں، کلاس میں انکے آنے جانے اور کام کرنے کی سہولیات نہ ہوں تو بھی اسکا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لئے چاہیے کہ نابینا کے لئے بریل کتابیں، سماعت سے محروم طلبہ کے لئے سماعتی آلات کی فراہمی کی جائے ۔ اسکولی تعلیم کا نیشنل کریکیولم فریم ورک )2005( بھی اسی بات پر زور دیتا ہے کہ تمام طرح کے طلبہ جو مختلف سماجی، تہذیبی و دیگر گروہوں سے تعلق رکھنے والے ہوں ان طلبہ کے لئے نصابِ تعلیم، کلاس روم سرگرمیوں اور تعینِ قدر میں یکساں مواقع فراہم کئے جائیں، جسکا اطلاق صرف اسکولی تعلیم کے لئے ہی نہیں، بلکہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بھی ضروری ہوگا۔
ان تمام باتوں پر غور کرنے سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ ہماری زندگی میں تناؤ کا عمل لگاتار چلنے والا عمل یا غیر اختتامی عمل ہے ، جو کہ قطعی صحیح نہیں ہے۔ بڑے اداروں جیسے سنٹرل یونیورسٹیوں کے طلبا میں اپنے پڑھائی، ادارے ،ساتھیوں، کیمپس کی پر کیف فضا کو لیکر ایک طرح کا اطمینان نظر آتا ہے۔ بس ہمیں لگتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اچھے اداروں میں تعلیم دلائیں، مستقبل میں آنے والےمواقعوں سے روشناس کرائیں، تو ممکن ہے کہ ان میں آگے بڑھنے، ترقی کرنے کی جستجو جاگ اٹھے۔ یہ تمام باتیں ان کو ایک مثبت محرک کا کام کریں گی۔  طلبہ بڑھتے ہوئے تناؤ کا شکار ہونے کے بجائے اعلیٰ تعلیم سے موافقت اختیار کریں گے اور مزید ترقی کریں گے۔

چلتے چلتے، آپ کو معلومات پہنچانے والا ایک ایپ AIR News:
تناؤ سے تعلق رکھنے والے میرے پہلے مضمون کے ایک قاری میرا دھیان دلایا کہ میں مضمون کے اس حصّے کو اپنے مضمون سے الگ کرنے کے لئے یہ ضرور لکھوں کہ اس مواد کا تعلق مضمون سے نہیں ہے۔ میں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہاں پر تحریر کرنا چاہتا ہوں کہ حالانکہ یہاں پر لکھے جانے والے اس ایپ کا تعلق اوپر ذکر شدہ مضمون سے نہیں ہے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہمارے قارئین کو کچھ ایپس کی معلومات دیتا چلوں، جس سے ان کی دنیا کی معلومات یعنی حالاتِ حاضرہ کی واقفیت بڑھے ۔ اس لئے یہاں پر AIR News ایپ کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس ایپ کو گوگل پلے یا ونڈوز کے اسٹورز سے ڈا ؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ ونڈوز فون میں اسکی ریٹنگ بہت کم یعنی 2.7 ہے جبکہ گوگل پلے میں اسکی ریٹنگ 4.1 ہے، جوکہ ایک اچھی ریٹنگ ہے۔ اسکے ریویو سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک سرکاری AIR نیوز اپلی کیشن ہے جو آپ کو بھارت میں آل انڈیا ریڈیو نیوز نیٹ ورک سے معلومات اکٹھا کر کے فراہم کرتا ہے. پرسار بھارتی جو کہ بھارت کی پبلک سروس براڈکاسٹر خدمات ہیں اپنی علاقائی اور قومی تازہ ترین خبروں کو یکجا کرکے سامعین کے لئَے ان کو ایک ہی پلیٹ فارم پر فراہم کرتا ہے۔ ان میں آڈیو خبروں کو سننے کے علاوہ خبروں کو متن کے حوالے سے پڑھا بھی جاسکتا ہے۔ اہم خبروں میں ہیڈلائینس)سرخیاں(، ریاستی، قومی، بین الاقوامی، بزنس اور کھیلوں سے متعلق خبریں ہوتی ہیں۔ اگر آڈیو خبروں کا ذکر کیا جائے تو ہندی، انگریزی اور اردو زبانوں میں یہ دستیاب ہیں، پروگرامس کے تعدد کا ذکر ہوتو دیکھا جاسکتا ہے کہ اس میں روزانہ ، ہفتہ وارانہ، اور خصوصی طور پر نشر ہونے والے پروگرامس شامل ہیں۔ اسکے علاوہ یہاں دیگر زبانوں میں نشر ہونے والے قومی اور علاقائی نیوز بلیٹن بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ چونکہ یہ ایپ آڈیو اور ٹیکسٹ مواد کا استعمال کرتی ہے، اسلئے اس میں کم ڈیٹا استعمال ہوتا ہے، لیکن صارف کو اسکے استعمال کے لئے انٹرنیٹ کا استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر اعلیٰ تعلیم پا رہے طلبہ اس ایپ کا استعمال کرتے ہیں تو چلتے، پھرتے، اٹھتے، بیٹھتے نیوز سن سکتے ہیں، وقت کا صحیح استعمال کر سکتے ہیں اور حالات حاضرہ سے واقف بھی ہو سکتے ہیں۔ مسابقتی امتحانات میں شریک ہونے والے طلبہ اس کا استعمال کریں تو کافی فائدہ مند ہوگا۔ یہ ایپ ان اشخاص کے لئے بھی مفید ہے جو اپنے گھروں سے دور ہوں اور شب و روز اپنے وطن کی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہوں تاکہ اس کے استعمال سے تازہ ترین خبروں سے واقف رہ سکیں، جیسے بنگلور کا ایک سپاہی جو سرحد پر پوسٹیڈ ہے، دھارواڑ سے نشر ہونے خبروں کو یا ایک کشمیر کا طالب علم جو حیدرآباد میں تعلیم حاصل کررہا ہو،سرینگر سے نشر ہونے والے اردو یا کشمیری بلیٹن کو اپنے فرصت کے اوقات میں سن سکتا ہے، یعنی اسکو سننے کے لئے'سنکرونس ' موڈ میں ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ حالیہ وقت میں لگ رہا ہے کہ یہ ایپ اتنے کار آمد ثابت نہیں ہو رہا ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اردو کے شائقین اپنی زبان میں اس نیشنل نیوز بلیٹن کو صبح، دوپہر اور رات کی نشریات کے علاوہ، علاقائی کیندروں جیسے حیدرآباد، اورنگ آباد، سرینگر ، لکھنو کی نیوز بھی سن سکتے ہیں۔

This article is published simultaneously in Munsif, Hyderabad dated 13th August, 2016 and Salar Daily, Bengaluru dated 16th August, 2016 (First episode). Readers may feel free to give their feedback in comments.