اردو یونیورسٹی ۔یہ علم کا شہر گھر ہے میرا



فضل تابشؔ صاحب نے بستی کا تصور کچھ اس طرح پیش کیا ہے، جو غالباً حیدرآباد شہر کے تصور کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
میرے چاروں اور مکانوں سے آتی آوازیں 
سڑکوں پر لہراتی ان گنت موٹر کاریں
اسکولوں سے چھنتی زندہ ہنستی بھن بھن 
لیمپ پوسٹ سے بہتی جگمگ دھارا 
ہنستے لوگوں سے بھرپور دوکانیں سڑکیں 
اخباروں میں چھپنے والی اونچے انسانوں کی باتیں

حیدرآبادملک کے چندخوبصورت شہروں میں گناجانے والاشہر،آبادی کی کثرت سے جانا جانے والا علاقہ، اپنی تعمیرات کے لیے بھی مشہورہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہم چیزوں کے لئے یہ شہرمقبولِ عام ہے۔اسکی زبان،تہذیب جس کی عکاسی کرنے میں موجودہ حکومت اور بطور خاص وزیراعلیٰ تلنگانہ اپنافخرسمجھتے ہیں۔ جہاں چار مینار کے دامن میں لاڈ بازار چوڑیوں کے لئے عالمی سطح پر شہرت رکھتا ہے، وہیں یہاں کی بولی بھی اپنے آپ میں دلکش ہے،جوکہ بالی ووڈ کی فلموں کی چاشنی بڑھانے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ ایک طرف تو یہ فلم انڈسٹری، کیمیائی انڈسٹری کاشہرہے اور ساتھ ہی 11 سے زائد مرکزی و ریاستی یونیورسٹیوں سمیت کئی ہم اداروں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں،تودوسری جانب یہ ترقی یافتہ آئی ٹی انڈسٹری کا ایک hub بھی ہے۔ جب اتنی ساری چیزیں یہاں موجود ہیں تو ظاہر ہے آبادی بھی کثیر ہے،اور انسان کو یہاں پر رہنے کے لیئے جگہ کم پڑ جاتی ہے۔ مکان و دکان ایکدوسرے سے لگ کر ایسے بنے ہیں مانو کہ جیسے کنکریٹ کا ایک جنگل کھڑا ہو گیا ہو، گاڑیوں کو پارک کرنے کی جگہ تو دور انکو چلانے کے لئے راستہ بھی کم پڑ جاتا ہے۔ آلودگی سے بھری فضا ہے، پانی کی کمی ہے، ایسے میں حیدرآباد میں جنگل تو کیا کھلی جگہ کا تصور بھی دشوار کن ہے! یہ نوٹ کیا جائے کہ یہاں جنگل سے مراد صرف کھلی فضا اور خوشنما ماحول کے طور پر لیا گیا ہے، جس میں قدرت کے مختلف منظر موجود ہیں۔

جہاں لوگ حیدرآباد آکر چار مینار ضرور جاتے ہیں وہیں اردو ادب سے لو رکھنے والے اشخاص مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا مشاہدہ باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ مجھے اس یونیورسٹی کے ایک پاس آؤٹ طالب علم(جو اب کشمیر یونیورسٹی کے معلم بھی ہیں )نے ایک بار کہا کہ میں وہاں سے فارغ تعلیم ہوں، جہاں اردو کاتاج محل واقع ہے۔حالانکہُ اس وقت یہ تاج محل یعنی عمارتِ انتظامی کی ایک ہی بلڈنگ ہوا کرتی تھی،لیکن اب مانو کے کیمپس میں کئی عمارتیں ہیں جو اپنی خوبصورتی کی مثال اپنے آپ رکھتی ہیں اور بعض جگہ انڈو پرسین آرکیٹیکچرکی جھلک نظر آتی ہے۔ اور اسکاسوشیل میڈیا میں چرچا بھی بہت ہے۔ سوشیل میڈیا کی یہ تصویریں عمارتوں کے علاوہ یہاں پر پائے جانے والے flora and fauna کا احاطہ بھی کرتے ہیں۔ باہر سے آنے والے پروفیسرز اور سکالرز نے اس کیمپس کی جب جب تعریف کی ہے یہاں پر رکھی جانے والی صفائی کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ اردو زبان کی ترویج کو مختص یہ ادارہ غیر اردو دان طبقہ کو اس طرح بھی پہنچ رہا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ ادارہ لگاتار دوسری بار NAAC 'A' گریڈ حاصل کرچکا ہے، اس گریڈ کی اہم وجہ تعلیمی و تحقیقی ترقی ضرور ہے لیکن کیمپس کے خوشنما ماحول کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

تعلیم کا اثر ہے
اونچا ہمارا سر ہے
فراغ ؔ روہوی

جب اپنے بچوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو ہم انہیں ملک کے دور دراز مقامات کو لے جاتے ہیں بطور خاص ان مقامات پر جہاں چڑیا گھر یا zoo ہوں وہاں ضرور جاتے ہیں جہاں پر انہیں مختلف النوع حیوانات و حشرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کیمپس میں رہنے والے طلبہ اور افرادِ خانہ تو مختلف قسم کے جانداروں کو اسی کیمپس میں دیکھ پائیں گے۔ یونیورسٹی نے یہاں پر دکھائی دینے والے چند نایاب پرندوں کی تصاویر کو اکھٹا کر کے 2016 میں یونیورسٹی کا آفیشل ٹیبل کیلینڈر ترتیب و تزئین دیا تھا۔ اس کیمپس میں جب ہمارا قومی پرندہ یعنی مور اپنے اہل خانہ کے ساتھ ٹہلتا ہے تو کیا چھوٹے کیا بڑے سبھی خوش ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ یہاں پر پائے جانے والے پرندے، میملز، امفیبین،مچھلیا، رینگنے والے وبغیر ریڈھ کی ہڈی کے جاندار اور پودے اور فنگی ایک حسین بائیوڈائیورسٹی کا مظہر پیش کرتی ہے۔ شہر کی چہل پہل سے قریب ہونے کے باوجود بھی یہاں پر ایسے جانداروں کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ ریاستی حکومت نے جہاں بائیو ڈائیورسٹی کو بڑھانے اور اسکی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے یونیورسٹی کے قریب ہی میں ایک الگ پارک بنایا ہے، جس کے لیے خصوصی عملہ اور نظم و ضبط کا انتظام کیا گیا ہے، تو وہیں قدرتی طور پر قدرت کو بچائے رکھنے والی اس یونیورسٹی کے اس عمل کو بھی سراہا جانا ضروری ہے۔ یونیورسٹی کے کیمپس میں مختلف قسم کے پھول، پودے اور پیڑ موجود ہیں۔ زراعت سے واقف فیملیز اپنے گھروں کے اطراف پائی جانے والی چھوٹی سی زمین کا استعمال کرکے کچن گارڈن بھی بناسکتے ہیں،اور کیمیائی غذا کے اس دور میں آرگانیک یا نامیاتی غذا کا انتظام بھی کرسکتے ہیں۔ 

ہم جب چھوٹے تھے تو ہم نے دیکھا تھا کہ ڈیفنس کا علاقہ ہمارے یہاں بہت مقبول تھا کیونکہ اس میں برسر خدمت اشخاص کی رہائش بھی ہوا کرتی تھی اور ساتھ ہی یہ علاقہ ہرا بھرا اور صاف ستھرا ہوا کرتا تھا۔ پھر بڑے ہو کر ہم نے دیکھا کہ مرکزی ادارے جیسے ریجنل کالج آف ایجوکیشن میسور اور NCERT نئی دہلی بھی اسی طرح کا پر سکون اور خوش نما ماحول رکھتے ہیں۔ جب سے میں نے مانو میں قدم رکھا ہے تو لگاتار یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ یہاں پر بھی اس قسم کے ماحول کی فراہمی میں روز بروز بہتری ہی آرہی ہے یہاں تک کہ بیرونی سیاح بھی بے حد خوش ہوکر لوٹتے ہیں۔ یہاں پر موجود rocks یا چٹانوں کو بھی اہمیت کا حامل مانا گیا ہے، جو اس کیمپس کی خوبصورتی میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔ HUDA ورثہ قواعد کے تحت راک سوسائٹی نے 15 راک سائٹس کی نشاندہی''ورثہ نگہداشت'' کے طور پر کی ہے، جسکی تصدیق آندھرا پردیش کی حکومت نے G.O. 68، 2nd فروری، 2009 کی تاریخ کے آرڈر میں کی گئی ہے۔ MANUU کیمپس میں ان میں سے دو چٹانیں ہیں۔ راک سوسائٹی نے انہیں 'پتھر دل' اور 'کثرت میں وحدت' کے طور پر نامزد کیا ہے۔ لیکن اس وقت ان تمام کاموں پر نگرانی کرنے نے والے عملہ کی دور اندیشی اور محنت کی تعریف ہونی بے حد ضروری ہے۔ مزید یہ کہ جب سے ہم کیمپس میں منتقل ہوئے ہیں تو بارش کے منظر میں نہاتے ہوئے پیڑوں کو گھر کے اندر سے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے، بارش کے بعد سڑکیں صاف و شفاف نظر آتی ہیں۔ کبھی کبھار تو قومی پرندہ مور گھر کے گارڈن میں آکر درشن بھی دے جاتا ہے۔ لیکن یہاں پر نظر آنے والے رینگتے جانور یعنی reptiles جو کہ گھر کے گارڈن میں ہی گھومتے ہیں ہمیں ڈرا سا دیتے ہیں کیونکہ گھر کے چھوٹے بچوں کو کچھ ہو نہ جائے۔ لیکن ایک چھوٹی سی امید یہ بھی ہے کہ وقتِ ضرورت 24x7 یونیورسٹی کی ہیلتھ سروس ہمارے لیے موجود ہے، ساتھ ہی ساتھ قرب و جوار میں بہت سے کارپورٹ ہاسپٹل بھی دستیاب ہیں۔ آپ اسے رسورٹ کہیں یا جنگل لیکن یونیورسٹی میں شہر کی کثیر اور گنجان آبادی سے پرے خاموش، سنسان،پرسکون، secured، وائی فائی سے بھر پور ماحول موجود ہے۔ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں اس طرح کا ماحول فراہم کیا ہے اور وہ بھی تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ رہتے ہوئے یہ ساری چیزیں ہمیں دستیاب ہیں۔ عالموں کی صحبت سے علم حاصل ہوتا ہے جس طرح کے عطر کی دوکان میں رہنے والا شخص معطر رہتا ہے۔ 

مجھے رابندر ناتھ ٹیگور کی فطری تعلیم کا تصور یاد آتا ہے کہ ان کا ماننا تھا کہ ایک مثالی اسکول فطری ماحول میں ہونا چاہیے، اور اس فلسفہ کہ تحت وشوا بھارتی یونیورسٹی بنائی گئی۔ اس فلسفہ کو اردو یونیورسٹی کے پسِ منظر میں اگر دیکھا جائے تو اس سے بہتر طریقہ تعلیم اور کیا ہوسکتا ہے، قدرتی پس منظر میں تعلیم ہمارے لیے فطری تعلیم ہی ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ ایک طالب علم کی بنیادی ضروریات جیسے وقت پر کھانا اور پڑھائی کے لئے لائبریری کی سہولت ہونی چاہیے اور یہاں پر یہ دونوں سہولیات موجود ہیں۔ اسکے علاوہ ملک کے مختلف مقامات سے منتخب شدہ تعلیم کے ماہرین اساتذہ، وائی فائی سے لیس طرز تعلیم آج کے constructivist طرز تعلیم کے دور میں ایک اضافہ ہی مانا جانا چاہیے۔ کیونکہ اس طریقہ تعلیم کی اساس یہ ہے کہ طلبہ کا پس منظر اور تجربات آنے والے مواد کو سیکھنے کے لئے سازگار ہوتے ہیں۔ اردو کلچر تو یہاں کے طلبہ کو اٹھتے بیٹھتے پورے سال کلاس روم اور کلاس روم سے باہر اور خصوصی طور پر پروگراموں میں ملتا ہی رہتا ہے، اور طلبہ اس سے بھی لگاتار استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے یہ مانا جا سکتا ہے کہ اردو یونیورسٹی طلبہ کے مستقبل کو بنانے کی طرف لگاتار گامزن ہے۔ طلبہ اس تعلیمی ماحول سے استفادہ کریں ورنہ گلوبلائزیشن کہ اس دور میں کہیں ہم پیچھے نہ ہو جائیں ۔ جامعہ کے ترانہ میں اردو یونیورسٹی کے بارے میں شاعر گلزارؔ صاحب صد فی صد سچ کہا ہے جو کچھ اس طرح کہا ہے،

یہ علم کا شہر گھر ہے میرا
مرا مدرسہ مرا وطن ہے
تعلیم کا موسم ہے
تہذیب کی فصلیں ہیں