بچوں میں تناؤ ! کیوں اور کیسے؟

                        جب ہم کھیلتے کودتے، مسکراتے بچوں کو دیکھتے ہیں تو ہمارے بچپن کے دن تازہ ہو جاتے ہیں۔ سبھی والدین اور سرپرستوں کو لگتا ہے کہ بچپن بہت ہی خوشگوار اور بے فکر دور ہوتا ہے۔ جس میں نہ کمانے کی فکر نہ خرچ کرنے کی جھنجھٹ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے،   "آزاد ہیں فکروں سے، غم پاس نہیں آتا"؛ تو کوئی اور یوں کہتا ہے ، "بچپن کے دن بھی کیا دن تھے، اڑتے پھرتے تتلی بن کر"؛ تو کوئی اور اس طرح کہتا ہے ، "ہم بھی اگر بچے ہوتے تو نام ہمارا ہوتا گبلو،ببلو اور کھانے کو ملتے لڈّو"۔

یعنی یہ کے بچپن فکروں سے آزاد ہوتا ہے، کیونکہ نہ انکو کسی نوکری کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی بل کی ادائیگی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔  جسکی وجہ سے وہ فکروں سے آزاد ہوتے ہیں اور بالغ حضرات ہمیشہ سے ایک دباؤ میں رہتے ہیں۔ لیکن وہ دن گئے، اب تو بچوں میں بھی پریشانی اور فکر تناؤ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ تناؤ کیا ہے؟ تناؤ ایک محرک کی ادراک کے لئے ہمارا قدرتی، جسمانی ردعمل ہے،اور یہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ تناؤ نہ صرف بڑوں میں بلکہ بچوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔وقت پر اٹھنا، تیار ہونا، اسکول جانا، دل لگا کر پڑھائی کرنا، گھر آکر ہوم ورک کرنا،اپنی چیزوں کی حفاظت کرنا، ماں باپ کی امیدوں کی تکمیل کی کوشش کرنا اور نہ جانے کتنے اور مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں یہ چھوٹے بچے۔ یہی ساری چیزیں بچوں کے تناؤ کا باعث بنتی ہیں۔ ہر ایک کام کو کرتے وقت جو ردّعمل واقع ہوتا ہے، وہی تناؤ ظاہر کرتا ہے۔ تناؤ مختلف اقسام کا ہو سکتا ہے اور اسکی وجوہات بھی مختلف ہوتی ہیں۔

تناؤ کی اقسا م اور  وجوہات
تناؤ ہمیشہ منفی نہیں ہوتا، خوشی کے واقعات جیسے ایک امیدوار کو انجنیرنگ یا میڈیکل جیسے کورس میں داخلہ ملنا ہی کافی نہیں ہے، کیونکہ اس کورس میں کامیابی کو لے کر اسکے اند ایک تناؤ  شروع سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ مسابقتی امتحان میں جو اس نے کامیابی حاصل کی ہے وہ اسے مثبت دباؤ پیدا کرتی ہے۔ جس سے اسے پڑھنے لکھنے سے مزید دلچسپی پیدا ہوتی ہے، وہ اپنے ٹارگیٹ ریوائز کرتا ہے، اور نئے طریقہ کار بناتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کورس میں آنے والے امتحانات کو لیکر اس پر ایک دباؤ بھی پڑتا ہے۔ اب آنے والے دنوں میں اسے مزید محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگر کہیں کوئی بھول چوک ہوجائے یا ناکامی حاصل ہو  تو اس کی  کورس سے دلچسپی ختم ہوجاتی ہے، اور اس پر منفی اثر ڈالتی ہے۔

ذہنی دباؤ کے اقسام

 
نفسیاتی طور پر وہ ذہنی دباؤ  جس سے ہمیں مثبت تجربہ ہوتا ہے،  ‘Eustress’ کہلاتا ہے. اس سے کام میں اضافہ ہوتا ہے، شخص تحریک پاتا ہے، اور اس طرح کا تناؤ  طلبہ کو پڑھائی کی طرف راغب کرتا ہے۔ اگر آپ اس ذہنی تناؤ کو ہینڈل نہیں کرتے تو Eustress ، ایک' اذِیّت' ‘Distress’  بن کر ابھرتا ہے. یہی وجہ ہے کہ طلبہ کو اسکولس میں تناؤ کم کرایا جانا چاہیے اور ایک خوشگوار ماحول فراہم کیا جانا چاہیے۔ اگر اسکول اس کا انتظام کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو حوصلہ افزائی، مثبت ذہنی تناؤ اسکے برعکس نقصان دہ،  کشیدہ ، اور منفی ماحول میں تبدیل ہوسکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ اگر والدین اپنے بچوں کی خواہش کے برخلاف اعلیٰ سے اعلیٰ کورسس میں داخلہ دلواتے ہیں تو  بھی بچے اس کو پورا کرنے کے بجائے ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔  یہاں پر  Eutress، Distress بن جاتا ہے۔



تناؤ کا عمل
محرکات یا stimuli  جو مثبت یا منفی ذہنی تناؤ پیدا کرتے ہیں، انہیں stressors کہا جاتا ہے. یہ  Stressor نسبتی ہوتے ہیں، کیونکہ جو حالات آپ پر تناؤ پیدا کرسکتے ہیں وہ آپکے دوست کے لئے تناؤ کی وجہ سے نہیں بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنا ہوم ورک اپٹوڈیٹ رکھنے والا طالب علم ہوم ورک نہ کرنے والے طالب علم سے کم تناؤ میں رہتا ہے ۔ یہاں پر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کیا تناؤ کا اثر جسم کے اندرونی اعضائ پر کیسے ہوتا ہے؟ جی ہاں ہمارا جسم ذہنی تناؤ کا جواب مختلف طریقے سے دیتا ہے. یقین جانئے جب آپ کے جسم یا آپ کے بہبود کے دوسرے پہلوؤں کے لئے ایک اچانک کوئی خطرہ پیش آتا ہے، تو جسم فوراً  'مخالفت یا فراری' یا ‘fight or flight’ کے رد عمل کے ساتھ جواب دیتا ہے. جسم کے دورانِ خون میں پٹیوٹری غدود  ایک ہارمون چھوڑتا  ہے جسکا نام adrenocorticotropic ہارمون (ACTH) ہے، جو ایڈرنل غدود کو تیز کرتاجس سے ایڈرینلن اور cortisol ریلیز ہوتے ہیں، جسے  " تناؤ والے ہارمون" کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ہارمون ہمیں تیز اور توجہ پرمرکوز رہنے، ہمارے رد عمل کے اوقات کو تیزکرنے، اور عارضی طور پر ہماری طاقت کو فروغ دینے کے قابل بناتے ہیں۔ اگر ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم کو دوڑنے  کی ضرورت ہے  یا یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم رکیں اور مخالفت کریں تو  بھی یہ ہارمون ہمیں اس قابل بناتے ہیں.

Maslow کی ضروریات کی ہائی ریرکی
اب جسم کے اندر واقع ہونے والی سرگرمی کو دیکھنے کے بعد یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کیا کوئی اور وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ایک شخص میں تناؤ  پیدا ہوتا ہے۔ اس کو جاننے کے لئے ہمیں ماسلو کی گروہ بندی کو دیکھنا ضروری ہوگا جو کہ مخروط کی شکل میں ماسلو نامی ماہر نفسیات نے 1943 میں دی تھی۔ اس مخروط میں انسانی ضروریات کو پانچ زمروں میں رکھا گیا ہے۔

سب سے پہلے انسان کی 'بنیادی ضروریات' ہیں جن کا پورا کرنا بے حد ضروری ہے۔ ان بنیادی ضروریات میں 'فعلیاتی ضروریات 'اور 'تحفظاتی ضروریات 'شامل ہیں۔ سب سے پہلے فعلیاتی ضروریات جیسے کھانا، پانی، حرارت اور  آرام  ایسی ضروریات ہیں جن کا ملنا عام یا خاص شخص کے لئے ضروری ہے۔ بچے ہوں کہ بوڑھے سبھی کو ان چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ فعلیاتی ضروریات پورے ہونے پر بچے یا بڑے اپنی حفاظت یا سلامتی کی طرف توجہ دیتے ہیں ، جیسے ایک بچے کو کسی کتے یا جانور سے ڈر لگتا ہے تو وہ فوراً اپنے والدین کی طرف دوڑتا ہے۔ رات میں ڈر لگتا ہے تو گھبرا جاتا ہے اور وہ ان لوگوں کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے جنکے ساتھ خود کو محفوظ پاتا ہے اور اسے حفاظت کا احساس ہوتا ہے۔ ان ضروریات کے پورے نہیں ہونے کی صورت میں بچے اپنے آپ کو کمتر محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بچے جو جھونپڑپٹی میں رہتے ہیں یا خانہ بدوش خاندانوں سے ہوتے ہیں، وہ پڑھائی لکھائی میں دلچسپی کم لیتے ہیں۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ انسان کی جتنی زیادہ بنیادی ضروریات ہونگی، تو وہ اس کو پورا کرنے کے لئے اتنا ہی خواہش مند ہوگا۔ اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس پر اتنا ہی تناؤ  بھی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ماں باپ اپنے اور اپنے بچوں کی بنیادی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لئے ہمیشہ سے فکرمند رہتے ہیں۔

اگلی سطح پر بچہ کو  گہرے تعلقات یا دوستی جو کہ 'محبت یا تعلق کی ضروریات' ہیں، اپنے خاندان کے افراد سے پوری ہوتی ہے۔ اپنے والدین، بھائی، بہن سب سے اسکا ایک گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ اگر خاندان میں کوئی سانحہ پیش آئے اور اسکے والدین نہ ہوں اور اسے یتیم خانوں جیسی جگہوں پر رکھا جائے تو یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اسکی نشوونما مکمل نہیں ہوپاتی۔ والدین کے الگ ہونے، گھروں میں جھگڑے ہونے  کی وجہ سے بھی بچوں میں پیار کی کمی نظر آتی ہے۔اس سے اگلی سطح 'انا یا حیثیت کی ضرورت ' ہے جو وقار اور کامیابی کے احساس سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ طلبہ کمرہ جماعت میں اپنے رتبہ، مرتبہ، شہرت،  تعریف، عزت اور غلبے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ان میں خود اعتمادیت، قابلیت، کامیابی، مہارت، آزادی کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔ اگر یہ ضروریات پوری نہیں ہو پاتی ہیں تو انکی خودداری کو ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ماسلو کا  ماننا تھا کہ انسان کے اندر پیدا ہونے والا احساس کمتری ہی سارے نفسیاتی مسائل کی جڑ ہے۔ ان دونوں سطحی ضروریات یعنی 'محبت، تعلق کی ضرورت 'اور' انا یا حیثیت کی ضرورت 'کو نفسیاتی ضروریات کے تحت رکھا گیا ہے۔

Maslow کے مخروط کے سب سے نیچلے چار تہوں میں دی گئی ان ضروریات کو ڈی-ضروریات یا کمی (Deficiency) کی ضروریات کہا جاتا ہے. ہر شخص، ہر طالب علم سب سے پہلے ان ضروریات کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ پہلی سطح کو حاصل کرنے میں ناکامی جسمانی نقصان کا سبب  بن سکتی ہے اور اگلے تین سطحوں میں ناکامی اس شخص میں پریشانی ، قطع تعلق یا بے چینی کا باعث بن سکتی ہے۔ اعلیٰ ترین ضرورت کو پہنچنا اسی وقت ممکن ہوگا، جب وہ ان نچلی ضروریات کو حاصل کر چکا ہوگا.

'خود  تصوریت 'کی سطح اس مخروطی گروہ بندی کی سب سے اعلیٰ سطح ہے، اور اس کو 'تکمیل ذات' کی ضروریات کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔یہاں پر جو بچہ یا طالب علم پہنچتا ہے وہ صرف عام بچہ ہی نہیں رہ جاتا بلکہ بہت ساری تخلیقی صلاحیتوں اور خوبیوں کا حامل ہو جاتا ہے، کسی ہنر میں مکمل صلاحیتوں کے حصول کے لئے کوشاں ہوجاتا ہے۔ دنیا کی بالغ آبادی کا صرف ایک ادنیٰ حصّہ یا کچھ فی صد حصہ ہی خودتصوریت تک پہنچتا ہے۔

اسکول میں ناکام ہونے والے طلبہ کا جب معائنہ کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ انکی 'بنیادی ضروریات 'کو پورا نہیں کیا جاسکا ہے، یا یہ ایسے بچے ہونگے جن کے خاندانی مسائل سامنے آئیں گے۔ ایسے طلبہ جنکو دوستوں کی کمی ہوگی اور ایسے بھی جو اپنی کامیابی کا احساس نہ رکھتے ہوں ایسے طلبہ ان تمام مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور تناؤ  کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ، NGO’s، سماج سبھی مل کر بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی سعی کریں۔

نوٹ: اس مضمون کے مصنف پروفیسر مشتاق احمد آئی پٹیل ایک ماہر تعلیم ہیں اور وہ بطور پروفیسر ، نظامت فاصلاتی تعلیم، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد میں برسر خدمت ہیں۔ مضمون سے متعلق تفصیلات کے لئے ان کو patel_mushtaq@outlook.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

 


`