عمدہ تعلیمی تحریر میں ایڈیٹنگ کا کردار
تعلیمی نظام میں تحریر ایک ناگزیر عمل ہے۔ اکثر اساتذہ کو ہم نے یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا،publish or perish، "شائع کریں، یا مٹ جائیں"۔ یہ جملہ یہاں پر صرف تعلیم میں تحریر کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔ تعلیمی نظام میں اساتذہ، طلباء اور ادارہ یا حکومت بھی اپنے مواد کو تحریر کر کے شائع کرتے ہیں۔
تحریر کرنا، لکھنا یا تصنیف کرنا ایک پیچیدہ سرگرمی سمجھا جاتا ہے ، جس میں کم از کم تین عمل شامل ہیں: منصوبہ بندی ، ترجمہ اور نظر ثانی۔ مصنف سب سے پہلے یہ طے کرتے ہیں کہ کس مضمون، موضوع، زبان، قاری، یا خاص کر کس مقصد کے لیے وہ تحریر کر رہے ہیں؟ اور یہ عمل تحریر کی منصوبہ بندی کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اپنے دماغ میں پنپنے والے خیالات کو زبان و بیان اور خاکوں کی شکل دیتے ہیں، جو ہمارے خیالات کو زبان میں ترجمہ اور ترجمانی کرتا ہے۔ آخر میں اس طرح لکھے گئے مواد کی نظر ثانی کرنا مقصود ہوتا ہے۔ مخصوص تحریری طرز مصنف یا مصنفوں کے گروہ کا امتیازی خاصا ہوتا ہے، جو ایک دوسرے سے جدا اور مختلف ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں لگتا ہے کہ اگر ایک طرح کا مواد تیار کرنا ہے تو اس میں ایڈیٹنگ کی ضرورت ہوگی، تاکہ مواد میں یکسانیت لائی جائے اور اس میں بہتری پیدا کی جائے۔ وہ ایڈیٹنگ ہی ہے جس نے مرزا غالب کے مواد کو بھی نہیں بخشا۔ بات کچھ یوں ہے کہ مرزا غالب کے دوست نواب شیفتہ صاحب ان کے بڑے نقاد تھے، جنہوں نے مرزا غالب کے سو سے زائد اشعار کو حذف کران کے دیوان کی ترتیب دی۔ بالکل اسی طرح معمولی سیٹنگ یا لوکیشن میں ریکارڈ کی جانے والی فلمیں یا آج کل کے یوٹیوب پروگرام ایڈیٹنگ کے بعد کافی مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں۔
ایڈیٹنگ میں تو اصل تحریری مواد کی کا کانٹ چھانٹ نہیں ہوتی لیکن جو مواد مضمون ہوتا ہے، اس کی تصحیح و ترتیب ہوتی ہے۔ ٹائپ کیے ہوئے مواد کی اصلاح و گرامر کی درستگی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر فاصلاتی نظام تعلیم کے ایک پروگرام کے خود اکتسابی پرنٹڈ مواد کو اکیڈیمک تحریر کے طور لے لیجئے۔ اگر اس خود اکتسابی مواد کی ایڈیٹنگ کرنی ہو تو، اس کا موازنہ اسی قسم کے مواد کی معیاری ترتیب سے کرتے ہوئے اس نئے مواد کو منظم کیا جائے گا، کیونکہ ایک خود اکتسابی مواد کا طرز درسیاتی کتب کے مضامین، میگزین کے آرٹیکل سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر یہ مواد اردو میں ترتیب دینا ہے تو اسمیں اردو کے ساتھ انگریزی میں بھی سرخیاں دینی ہونگی۔ لکھے گئے ہر مواد میں اکائی کا عنوان، ساخت، تمہید، مقاصد، مواد مضمون کے کچھ نکات، فرہنگ، یاد رکھنے کے نکات، اکائی کے اختتام کی سرگرمیاں، سفارش کردہ کتب کو بالترتیب رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک معیاری طریقہ ہے اور ہر اکائی پرنٹ کئے گئے، پندرہ سے بیس صفحات پر ہی مشتمل ہونی ہوتی ہے۔ اور اس طرح کی فاصلاتی نظام کی ایک کتاب جو کہ ایک کورس سے منسلک ہو وہ چار سے پانچ اکائیوں پر ہی منحصر ہوتی ہے۔ کچھ اداروں میں اس طرح کی چار پانچ کتابوں سے ایک کورس بنتا ہے۔ اس طرح سے ایک ایڈیٹر کو پروگرام سے متعلق، کورس سے متعلق یا ہر اکائی کے بارے میں عام ہدایات و معلومات لکھنا پڑتا ہے، تاکہ مواد میں یکسانیت پیدا ہو۔ ایڈیٹر کو ان سبھی اجزا میں یکسانیت، موزونیت، معیاری ہونے کا تیقن کرنا ہوتا ہے۔
اس طرح ایڈیٹنگ کرتے وقت یہ مان کر چلا جاتا ہے کہ مضمون یا اکائی کا مصنف اس لکھے گئے مواد کا ایکسپرٹ ہوتا ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا اگر کسی اکائی میں کوئی حصہ چھوٹ جائے تو وہی مصنف اس کی تکمیل کرے یکسانیت باقی رہتی ہے، جس میں مضمون سے متعلق سوالات بھی شامل ہیں۔ جو بھی اکائی میں لکھا جائے وہ پروگرام کی درسیات یا نصاب سے عین مطابق ہو، ورنہ تو سیکھنے سکھانے کے لیے سارا جہان موجود ہے۔ اسی لئے شاید نیوٹن جیسا بڑا سائنسدان سمندر کی ریت کے ذرے کو اٹھا کر کہتا ہے کہ میرا علم شاید اس ذرہ کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس لیے مواد کی ترتیب و تزئین کے لئے بہترین ایڈیٹنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔
انگریزی اور اردو کے مصنفین کی ابتدائی ادوار کی غلطیوں میں ٹائپوگرافیکل غلطیاں Typographical errors، انگریزی ہجے English spelling، انگریزی کیپٹلائزیشن / انگریزی چھوٹے حروف Capitalisation / lowercase، اوقاف Punctuation، لہجہ Accentuation، لغوی غلطیاں Lexical errors، فعل Verbs، اسم ترمیم کرنے والے Noun modifiers، تلفظ Pronounce، جملوں کے ڈھانچہ یا بناوٹ میں خرابی Sentence Error Structure، منطق میں تضادات Inconsistencies in logic، اور جملوں میں غلط آرڈر Improper sentence order جیسی چند خامیاں شامل ہوتی ہیں۔ آج کل ہاتھ سے لکھ کر کتابوں کی اشاعت بالکل نہیں ہوتی، ہر مواد کو شائع کرنے سے پہلے کمپیوٹرائزڈ کیا جاتا ہے، اس لئے اس میں ٹائپوگرافیکل غلطیاں زیادہ تر ہو جاتی ہیں، جو مصنف کی غلطیاں شاید نہیں مانی جائینگی۔ انگریزی میں تو Spell Check and Grammar آسانی سے دستیاب ہیں، لیکن اردو میں یہ سہولت صارفین استعمال نہیں کرتے۔ اس لئے اگر ان کا استعمال کیا جائے تو ہجے اور گرامر کی غلطیوں کو معلوم کرنے اور تصحیح کرنے میں سہولت دستیاب ہوگی۔
کبھی کبھار ایڈیٹنگ کے دوران پایا جاتا ہے کہ مصنفین مختلف جملوں کی بندش کے دوران مختلف قوانین کا استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کسی جملے میں جمع (plural) کے بارے میں کہہ رہے ہیں، لیکن جملے کا اختتام فعل کے اعتبار سے واحد پر ہوتا ہے۔ اکثر و بیشتر افراد گرامر جانتے ہیں، سمجھتے ہیں اور استعمال بھی کرتے ہیں، لیکن جب لکھنے کی باری آتی ہے تو اس میں کافی غلطیاں کر جاتے ہیں۔ اکثر افراد پروف ریڈنگ، ایڈیٹنگ اور نظر ثانی کو متبادل الفاظ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جبکہ کہ ھارس (Harris, 1987) پروف ریڈنگ کو لکھنے کے آخری مرحلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کی نظر میں ایڈیٹنگ اور نظر ثانی مواد کی تیاری تک لگاتار چلنے والا عمل ہے۔ جملوں کی بندش، گرامر، اوقاف، ہجے، املا اور نمبرز، بلیٹس لگانا (bullets) وغیرہ ایڈیٹنگ کے عمل کا حصہ ہیں ۔ جبکہ لکھنے کے طرز اور مواد میں تبدیلی لانا نظرثانی کا حصہ ہے۔ چند جگہوں پر ایڈیٹنگ میں زبان کے سدھار، پیشکشی اور دلکشی پیدا کرنا، ڈائگرام، چارٹ، یا تصاویر جوڑنا وغیرہ شامل ہیں۔
اس طرح اگر دیکھا جائے تو تحریر ایک تکراری غیر خطی عمل ہے، اس وجہ سے ابتدائی مراحل میں واقعاتی ترمیم ہوسکتی ہے۔ لیکن خود اکتسابی مواد جیسی تحریر میں اشاعت کے بعد طلبہ کے مشاہدات کے مترادف پھر اس مواد میں ترمیم کی گنجائش ہونی چاہیے۔ تحریر میں سدھار کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیونکہ آج کل اپنے مضامین میں موضوعات لکھنے کے ان گنت مواقع مہیا ہیں۔ آپ اخبارات، رسالات، جرائد، یونیورسٹیوں کے لئے خود اکتسابی مواد، بلاگ، ویب سائٹس، نیوز رپورٹس، ڈاکومنٹری وغیرہ کے لئے مختلف زبانوں میں مختلف النوع مضامین لکھ سکتے ہیں۔
حالانکہ تحریر میں سدھار لانا ایک طویل مدتی عمل ہے، جس کی لگاتار مشق کی جانی چاہئے۔ لیکن پھر بھی یہ موضوع قارئین میں تعلیمی تحریروں سے متعلق جستجو پیدا کرنے کے مقصد سے لکھا گیا ہے۔ اور امید ہے کہ قارئین اس کے مختلف پہلوؤں کو جاننے کے لیے اس طرح کے مزید مواد کا مطالعہ کریں گے۔
This article is published in UGC-CARE listed journal "Monthly Qaumi Zuban Urdu, Hyderabad", August 2021 issue (ISSN 2321-4627).
Comments
Post a Comment