Posts

اردو یونیورسٹی ۔یہ علم کا شہر گھر ہے میرا

Image
فضل تابشؔ صاحب نے بستی کا تصور کچھ اس طرح پیش کیا ہے، جو غالباً حیدرآباد شہر کے تصور کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ میرے چاروں اور مکانوں سے آتی آوازیں  سڑکوں پر لہراتی ان گنت موٹر کاریں اسکولوں سے چھنتی زندہ ہنستی بھن بھن  لیمپ پوسٹ سے بہتی جگمگ دھارا  ہنستے لوگوں سے بھرپور دوکانیں سڑکیں  اخباروں میں چھپنے والی اونچے انسانوں کی باتیں حیدرآبادملک کے چندخوبصورت شہروں میں گناجانے والاشہر،آبادی کی کثرت سے جانا جانے والا علاقہ، اپنی تعمیرات کے لیے بھی مشہورہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہم چیزوں کے لئے یہ شہرمقبولِ عام ہے۔اسکی زبان،تہذیب جس کی عکاسی کرنے میں موجودہ حکومت اور بطور خاص وزیراعلیٰ تلنگانہ اپنافخرسمجھتے ہیں۔ جہاں چار مینار کے دامن میں لاڈ بازار چوڑیوں کے لئے عالمی سطح پر شہرت رکھتا ہے، وہیں یہاں کی بولی بھی اپنے آپ میں دلکش ہے،جوکہ بالی ووڈ کی فلموں کی چاشنی بڑھانے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ ایک طرف تو یہ فلم انڈسٹری، کیمیائی انڈسٹری کاشہرہے اور ساتھ ہی 11 سے زائد مرکزی و ریاستی یونیورسٹیوں سمیت کئی ہم اداروں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں،تودوسری جانب یہ ترقی یافتہ آئی ٹی...

کیاموبایل سے بہتر کوئی جلیس نہیں؟

Image
جلیس یا دوست وہ ہوتا ہے جو ہر وقت ہمارے ساتھ رہتا ہے ،چاہے وہ خوشی کا موقع ہو یا غم کے حالات ۔آج کل کا ماحول کچھ اسی طرح کا ہو گیا ہے کیابڑے، کیا چھوٹے یا کیا شادی کی خوشیوں کا ماحول یا غم کے اطلاعات پہنچانے کا موقع موبایل ہمیں ایک بہترین دوست کی طرح ساتھ دےرہا  ہے  اور ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ ایک دوست کی خصوصیات میں بھروسہ مند ہونا، قابل اعتماد، ایماندار اور وفادار ہونا بھی شامل ہے ۔ بغیر ان خصوصیات کے دوستی بھی قابلِ بھروسہ نہیں ہوتی ۔اگر یہ دیکھا جائے کہ آیا موبایل میں اس طرح کی خصوصیات پائی جاتی ہیں ؟تو ہاں ہم یہ بھروسہ کرسکتے ہیں کہ موبایل فون ضرورت کے وقت اپنوں سے رابطہ کرنے میں مدد دیتا ہے اور آپ کے ذریعے کیا گیا کال اگر گھر والوں کے لئے ہے تو گھروالوں سے ہی جڑے گا ،یعنی یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ غلط نمبر نہیں جوڑے گا، جب تک کہ آپ غلط نمبر نہیں ڈائل کریں گے ۔ یہ ہمارے دوستوں کی طرح ایماندار بھی ہوتا ہے اور ہماری باتوں کو خفیہ ہی رکھتا ہے انہیں افشاں نہیں ہونے دیتا ۔ موبایل ہمارا وفادار ہوتا ہے ، اور ہمارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا یا اگر غلطی سے کہیں چھوٹ بھی جائے تو 'مس ...

Managing Teaching-Learning

Blogging for creation of Open Education Resources – 5R’s perspective

Image
Abstract: The concept of Open Educational Resources (OER) was conceived in 2002 by UNESCO forum and used extensively since then. Many efforts have been made to integrate OERs in the higher education in general and distance mode programmes in particular across the globe. Patel (2015) makes a meta-analysis of use of OER in Asian countries, and finds that India is no exception, and elucidates that it is far ahead in OER usage for educational purposes. The efforts in use of OER requires training of educators, course writers, course designers working in the area of distance education and awareness creation of learners regarding various OERs. MHRD (2016) website gives an information about existence of 677 universities in India in 2014, which includes one national, 13 state uni-modal and 194 bimodal universities listed on the DEB website (2016) that are facilitating distance education. But, practically to our surprise, dismay, we find that only few of these distance education universities/dep...

About DSW - MANUU

محترم المقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز صاحب، ہمارے معزز مقررین پروفیسر سید محمد حسیب الدین قادر ی صاحب اور ڈاکٹر علیم اشرف جائسی صاحب، پروفیسر احتشام صاحب،ہمارے سبھی تدریسی وغیر تدریسی ساتھی حضرات، اس پروگرام کے منتظمین ریسرچ اسکالرس، طلباء و طالبات۔ اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ اللہ رب العزت کا کرم ہے اور میرے پیارے نبیؐ کا صد قہ  ہے کے آج اس پروگرام میں آپ تمام کے ساتھ موجود ہوں ۔ مضمون كے ماہرین کے درمیان موضوع سے متعلق گفتگو  کی جسارت نہیں چاہتا۔  چونکہ مجھے اپنے طلبہ کے سامنے پہلی بار یوں آنے کا موقعہ مل رہا ہے تو صدر جلسہ کی اجازت سے اپنے طلبہ کو اپنے آفس کے ذریعے کئے جانے والے كچھ اہم كاموں  کا ذکر پروگرام سے پہلے مختصراً طور پر ضرور کرنا چاہوں گا۔ DSW آفس کو کھلے ایک سال سے کچھ عرصہ ہی گزرا ہوگا، اور جس میں ، میں نے ڈین کی ذمہ داری پچھلے تین مہینوں سے سنبھالی ہے، جس میں ہم نے کچھ اہم کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں شکر گذار ہوں جناب وائس چانسلر اور پرو وائس چانسلر کا کہ انہوں نے ہمیں یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے باہر کی مختلف events میں ہمار...

Vote of thanks given after investiture ceremony of MANUU students union 2016-17

محترم المقام وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب، ہردلعزیز رجسٹرار ڈاکٹر شکیل احمد صاحب، محترمہ پروفیسر خدیجہ بیگم صاحبہ، ڈین برائے بہبودی طلبہ  پروفیسر فضل الرحمٰن صاحب، مانو طلبہ کی یونین کے نو منتخب اراکین، اساتذہ اکرام اور تمام حاضرین آداب و سلام۔ مجھے  حلف برداری کے اس پر اہم موقعہ کی آخری رسم کا حصّہ بننے پر بڑی خوشی ہے۔ طلبہ کے یونین کے اراکین کے انتخاب کے لئے کئے گئے اس الیکشن کے عمل کا انعقاد ڈی ایس ڈبلیو آفس کے تحت کیا گیا، اس کے لئے ہم اپنی آفس کی جانب سے سب سے پہلے محترم المقام وائس چانسلر کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ہمیں یہ ذمہّ داری دی بلکہ اس الیکشن کے ہر مرحلے میں ہماری مکمل طور پر رہنمائی کی یہاں تک کہ ہمیں پتہ چلا کہ انہوں نے اپنی ذاتی  اور ضروری مصروفیات کو بھی اس کام کے لئے  ملتوی کیا اور پورے عمل میں اور بالخصوص الیکشن کے دن ہمارے ساتھ رہے۔ سر ہم آپ کے بے حد ممنون و مشکور ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ امید رکھتے ہیں کہ آئندہ آنے والی سرگرمیوں میں بھی آپ ہماری رہنمائی فرمائیں گے۔ ڈاکٹر شکیل احمد صاحب بہت ہی کم عرصہ میں ہمارے کیمپس ک...

کیا اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم کی بڑھتی سطح سے طلبہ کے تناؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ؟

Image
تعارف تعلیمی نظام مختلف زمروں میں بند ہے۔ اس تعلیمی نظام کو پری پرائمری، پرائمری، اپر پرائمری، ہائی اسکول، سیکنڈری اسکول اور اعلیٰ تعلیمی نظام کے طور پر درجہ بند کیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی نظام میں ڈگری، پوسٹ گریجویشن، ایم فل، پی ایچ ڈی جیسے ڈگریاں شامل ہوتی ہیں۔ اس سے نچلے سطح کے تمام کورسس کو اسکولی تعلیم کا حصہ مانا جاتا ہے۔ ان دونوں نظام تعلیم میں آزادی کے بعد بھارت میں لگاتار سدھار پیدا ہوا ہے۔ یو جی سی کی ایک رپورٹ میں مندرجہ ذیل بات درج ہے۔ "بھارت میں، خاص طور پر آزادی کے بعد کے دور میں اعلیٰ تعلیم میں ، ایک غیر معمولی طریقہ سے اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے دنیا میں اس نظام کو اپنی ہی نوعیت کے سب سے بڑے نظام میں سے ایک بننے میں مدد ملی ہے۔" ) اشوز ، کنسرنس اینڈ نیو ڈائریکشنس- یوجی سی 2003 ( ۔ اس بدلتے نظام تعلیم میں ہمیں کئی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ پہلے اعلیٰ تعلیم خواص کے لئے ہی تھی ، اور اب یہ سب کو دستیاب ہے۔ پہلے بہت کم ادارے دیکھنے کو ملتے تھے جو اعلیٰ تعلیم دیتے تھے، مگر اب نہ صرف گورنمنٹ اور پرائیویٹ کالجس کے دو زمرے ہیں، بلکہ انکے ساتھ ساتھ مرکزی، ریا...